Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۴۔ کیا انبیاء کے لیے بھول چوک ممکن ہے؟

										
																									
								

Ayat No : 79-82

: الكهف

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ۷۹وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۸۰فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ۸۱وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۸۲

Translation

یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا. اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا. تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی. اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں.

Tafseer

									۴۔ کیا انبیاء کے لیے بھول چوک ممکن ہے؟
مندرجہ بالا واقعے میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ۔ پہلے تو اس مچھلی کو جو انھوں نے کھانے کے لیے رکھی تھی ۔ دوسری اور تیسری مرتبہ آپ اپنے عالم دوست سے کیے گئے معاہدہ کو بھول گئے ۔ ان امور کو دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انبیاء کے لیے نسیاں ممکن ہے؟
بعض کا نظر یہ ہے کہ انبیاء سے ایسے نسیان کا صدور بعید نہیں ہے کیونکہ یہ دعوت نبوّت کی بنیاد اور اصول سے مربوط ہے اور نہ اس کی فروع ہے اور نہ ہی اس کا تعلق تبلیغ نبوت کے ساتھ ہے بلکہ اس کا تعلق صرف روز مرہ کی معمول کی زندگی سے ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ مسلّم ہے یہ ہے کہ کوئی نبی نبوت کی دعوت اور اس سے متعلقہ امور میں ہرگز خطا و اشتباہ کا آشکار نہیں ہوتا اور ان کا مقام عصمت انھیں اس قسم کی چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے لیکن اس میں کیا مانع ہے کہ موسی(ع) کو جو بڑے اشتیاق سے اس عالم کی تلاش میں جارہے تھے اپنے کھانے بھول گئے اور یہ ایک معمول کا مسئلہ ہے نیز اس میں کیا مانع ہے کہ کشتی میں سوراخ، نوجوان لڑکے کے قتل اور بخیلوں کے شہر کی دیوار کی بے وجہ تعمیر، جیسے بڑے واقعات نے ایسا ہیجان زدہ کیا کہ انھوں نے اپنے عالم دوست سے جو ذاتی عہد کیا تھا اسے بھول گئے ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نہ ایک پیغمبر سے بعید ہے اور نہ مقام عصمت کے منافی ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ نسیان یہاں مجازی معنی میں یعنی ترک کرنے کے معنی میں آیا ہے کیونکہ انسان جب کسی چیز کو ترک کرتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اسے بھول گیا ہو اور اس کے بارے میں اس نے نسیان کیا ہو ۔حضرت موسی(ع) نے اپنی غذا کو اس لیے ترک کیا کیونکہ وہ اس بارے میں بے اعتناء تھے اور اپنے عالم دوست سے کیے ہوئے معاہدے کو انھوں نے اس لیے ترک کیا کیونکہ حوادث کو ظاہری حوالے سے دیکھنے کی وجہ سے اصلاً یہ بات ان کے لیے قابل نہ تھی کہ کوئی شخص بلاوجہ لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچائے لہٰذا انھوں نے اعتراض کرنا اپنی ذمہ داری سمجھا اور ان کے نزدیک یہ معاہدے کا مقام نہ تھا ۔
لیکن واضح ہے کہ ایسی تفاسیر ظاہرِ آیات سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتیں(1)

 

1۔ یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ کسی نقلی دلیل کا ظہور مسلّم عقلی دلیل کے ساتھ ٹکرائے تو اس نقلی دلیل کی تاویل کی جائے گی مثلاً خدا کے بارے میں قرآن کی بہت سی آیات کا ظہور یہ ہے کہ وہ ہاتھ، آنکھیں، پہلو اور نفس رکھتا ہے یا معاذ الله وہ جسم رکھتا ہے لیکن چونکہ یہ امور اصول مسلمہ اور دلائل عقلیہ قطعیہ کے خلاف ہیں لہٰذا ان آیات کی تاویل کی جاتی ہے یعنی خلاف ظاہر معنی کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ معنی مجازی ہوتا ہے ۔ اسی طرح انبیاء، اور آئمہ(ع) کا مطلقاً معصوم ہونا عقلاً ضروری ہے لہٰذا اس کے خلاف ظہورات کی تاویل کی جانا چاہئے(مترجم) ۔