۳۔ خود ساختہ افسانے
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ۷۹وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۸۰فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ۸۱وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۸۲
یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا. اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا. تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی. اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں.
۳۔ خود ساختہ افسانے:
حضرت موسی(ع) اور حضرت خضر(ع) کی داستان کی بنیاد وہی ہے کہ جو کچھ قرآن میں آیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سے منسلک کر کے بہت سے افسانے گھڑلیے گئے ہیں ۔ ان افسانوں کو اس داستان کے ساتھ خلط ملط کرنے سے اصل داستان کی صورت بھی بگڑجاتی ہے ۔جاننا چاہئے کہ یہ کوئی پہلی داستان نہیں ہے جس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے اور بہت سی سچی داستانوں کے ساتھ یہی ہاتھ کیا گیا ہے ۔
لہٰذا حقیقت تک رسائی کے لیے قرآن کی ان تیئس آیتوں کو بنیاد قراردیا جانا چاہئے جن میں داستان بیان ہوئی ہے ۔ یہاں تک کہ احادیث کو بھی اسی صورت میں قبول کیا جاسکتا ہے جب وہ قرآن کے موافق ہوں ۔ اگر کوئی حدیث اس کے برخرخلاف ہو تو یقیناً وہ قابل قبول نہیں ہے اور خوش قسمتی سے معتبر احادیث میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے ۔