۲۔ خضر(ع)۔ کون تھے؟
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ۷۹وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۸۰فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ۸۱وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۸۲
یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا. اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا. تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی. اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں.
۲۔ خضر(ع)۔ کون تھے؟
جیسا کے ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت خضر کا نام صراحت کے ساتھ قرآن میں نہیں لیا گیا اور حضرت موسیٰ(ع) کے دوست اور استاد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
عبداً من عبادنا اٰتیناہ رحمة من عندنا و علمناہ من لدنا علماً
ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ جسے ہم نے اپنی رحمت عطا کی اور جسے ہم نے اپنے علم سے نوازا ۔
اس تعارف میں ان کے مقامِ عبودیت کا تذکرہ ہے اور ان کے خاص علم کو واضح کیا گیا ہے لہٰذا ہم نے بھی عالم کے طور پر ان کا زیادہ ذکر کیا ہے ۔ لیکن متعدد روایات میں اس عالم کا نام ”خضر“بتایا گیا ہے ۔بعض روایات سے معلوم ہے کہ ان کا اصلی نام ”بلیا ابن ملکان“ تھا اور ”خضر“ ان کا لقب ہے کیونکہ وہ جہاں کہیں قدم رکھتے ان کے قدموں کی بدولت زمین سر سبز ہوجاتی تھی ۔
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس عالم کا نام ”الیاس“ ہے ۔ یہیں سے یہ تصور پیدا ہوا کہ ہوسکتا ہے ”الیاس“ اور ”خضر“ ایک ہی شخص کے دونام ہوں لیکن مشہور و معروف مفسرین اور راویوں نے پہلی بات ہی بیان کی ہے ۔
واضح ہے کہ یہ بات کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی کہ اس شخص کا نام کیا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک عالمِ ربانی تھے اور پروردگار کی خاص رحمت ان کے شاملِ حال تھی ۔ وہ باطن اور نظامِ تکوینی پر مامور تھے اور کچھ اسرار سے آگاہ تھے اور ایک لحاظ سے موسیٰ(ع) بن عمران کے معلم تھے اگر چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کئی لحاظ سے ان پر مقدم تھے ۔
یہ کہ وہ پیغمبر تھے یا نہیں ۔ اس سلسلے میں روایات مختلف ہیں ۔ اصول کافی جلد اوّل میں متعدد روایات ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ پیغمبر نہیں تھے بلکہ وہ ”ذوالقرنین“ اور ”آصف ابن برخیا“ کی طرح ایک عالم تھے ۔1)
جبکہ کچھ اور روایات ایسی بھی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقامِ بنوت کے حامل تھے اور زیرِ نظر روایات میں بھی بعض تعبیرت ظاہری مفہوم بھی یہی ہے ۔ کیونکہ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں:میں نے یہ کام اپنی طرف سے نہیں کیا ۔
ایک اور مقام پر کہتے ہیں:ہم چاہتے تھے کہ ایسا ہو ۔
نیز بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک لمبی عمر کے حامل تھے ۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے ۔ وہ یہ کہ کیا اس عالمِ بزرگوار کا واقعہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں میں بھی ہے؟
سوال کا جواب یہ ہے:اگر کتب سے مرا کتب عہدین (تورات و انجیل)ہیں، تو ان میں تو نہیں ہے لیکن بعض یہوی علماء کی کتابیں کہ جو گیارہویں صدی عیسوی میں مدّون ہوئی ہیں، ان میں ایک داستان نقل ہوئی ہے کہ جو حضرت موسیٰ(ع) کی مذکورہ داستان سے کچھ مشابہت رکھتی ہے ۔ اگر چہ اس داستان کے ہیرو ”الیاس“ اور ”یوشع بن لاوی“ ہیں کہ جو تیسری صدی عیسوی کے ”تلمود“ کے مفسرین میں سے تھے ۔ یہ داستان اور کئی پہلوؤں سے بھی موسیٰ و خضر کی داستان سے مختلف ہے ۔
بہرحال مذکورہ داستان کچھ یوں ہے:
یوشع نے خدا سے چاہا کہ اس کی الیاس سے ملاقات ہو ۔ اس کی دعا پوری ہوگئی اور اسے الیاس سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوگیا ۔ اس کی آرزو تھی کہ الیاس سے کچھ اسرار حاصل کرے ۔ الیاس نے اُس سے کہا: تجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ انھیں برداشت کر پائے ۔
لیکن یوشع نے اصرار کیا تو الیاس نے اس کی درخواست اس شرط پر قبول کرلی کہ وہ جو کچھ بھی دیکھے گا ہرگز سوال نہیں کرے گا اور اگر اس نے خلاف وزری کی تو اسے الگ ہونا پڑے گا ۔
بہر حال اس معاہدے کے بعد یوشع اور الیاس اکٹھے چل پڑے ۔
دورانِ سفر وہ ایک گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔ صاحبِ خانہ بڑی گرم جوشی سے ان کی پذیرائی کرتا ہے ۔ اس گھر والوں کے پاس دنیا کی چیزوں میں سے صرف ایک گائے تھی کوئی اور چیز ان کی ملکیت نہ تھی ۔ وہ گائے کا دودھ بیچ کر گزر اوقات کرتے تھے ۔
الیاس نے صاحب خانہ کو حکم دیا کہ گائے کو ذبح کردے ۔ یوشع کو اس کردار پر سخت تعجب ہوتا ہے ۔ وہ اس کا سبب پوچھتا ہے ۔ الیاس اسے معاہدہ یاد دلاتا ہے اور جدا ہونے کی دھمکی دیتا ہے ۔ یوشع مجبوراً خاموش ہوجاتا ہے ۔
وہاں سے وہ دونوں ایک اور بستی کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ اس بستی میں پہنچ کر ایک مالدار آدمی کے گھر داخل ہوتے ہیں ۔ اس گھر کی ایک دیوار گرنے کے قریب ہوتی ہے ۔ الیاس خودد مٹی کے کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اس دیوار کی مرمت کردیتا ہے ۔
وہاں سے وہ ایک اور بستی میں پہنچتے ہیں ۔ اس گاؤں کے ”چند لوگ“ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔ وہ ان دونوں کی اچھی پذیرائی نہیں کرتے ۔ الیاس نے کے لیے دعا کی کہ ان سب کو ریاست و امارات نصیب ہو ۔
وہ چوتھی بستی میں پہنچتے ہیں تو ان کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ہے ۔ الیاس ان کے لیے دعا کرتا ہے کہ ان میں سے صرف ایک کو ریاست نصیب ہو ۔
آخر کار یوشع بن لاوی کی قوت برداشت جواب دے دیتی ہے وہ ان چار واقعات کے بارے میںسوال کرتا ہے تو الیاس کہتا ہے:
پہلے گھر میں صاحبِ خانہ کی بیوی بیمار تھی ۔ اگر وہ گائے صدقہ کے طور پر قربان نہ کی جاتی تو وہ عورت مرجاتی ۔
دوسرے گھر میں دیوار کے نیچے ایک خزانہ تھا کہ جو ایک یتیم بچے کے لئے محفوظ رہنا چاہیٴے تھا ۔
تیسری بستی کے سب لوگوں کے لیے ریاست کی دعا اس لیے کی کہ وہ پریشانی سے دوچار ہوں جبکہ اس کے برعکس چوتھی بستی کے ایک شخص کے لیے دعا کی تاکہ ان کے امور منظم اور بہتر طور پر انجام پائیں ۔(2)
غلط فہمی نہیں ہوتنا چاہیے ۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ یہ دونوں داستانیں ایک ہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ یہودیوں نے جو داستان نقل کی ہے وہ قرآن کی موسیٰ(ع) و خضر(ع) کی داستان کے مشابہ ہے یا پھر موسیٰ(ع) و خضر(ع) کی داستان میں تحریف ہوکر یہ اس صورت میں باقی رہ گئی ہے ۔
1۔ اصول کافی، ج۱، باب ”ان الائمة بمن یشبہون فیمن مضی“ص ۲۱۰۔
2۔ یہ تمام تر عبارت کتاب اعلام قرآن ص ۲۱۳ سے نقل کی گئی ہے ۔