عظیم اُستاد کی زیارت
فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا ۶۵قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ۶۶قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ۶۷وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ۶۸قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا ۶۹قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ۷۰
تو اس جگہ پر ہمارے بندوں میں سے ایک ایسے بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی تھی اور اپنے علم خاص میں سے ایک خاص علم کی تعلیم دی تھی. موسٰی نے اس بندے سے کہا کہ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ تعلیم کریں جو رہنمائی کا علم آپ کو عطا ہوا ہے. اس بندہ نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے. اور اس بات پر کیسے صبر کریں گے جس کی آپ کو اطلاع نہیں ہے. موسٰی نے کہا کہ آپ انشائ اللہ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی مخالفت نہ کروں گا. اس بندہ نے کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو بس کسی بات کے بارے میں اس وقت تک سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر نہ شروع کردوں.
عظیم اُستاد کی زیارت
جس وقت موسیٰ(ع) اور ان کے ہمسفر دوست مجمع البحرین اور پتھر کے پاس پلٹ کرآئے تو ”اچانک ہمارے بندوں میں سے ایک بندے سے ان کی ملاقات ہوگئی ۔ وہ بندہ کہ جس پر ہم نے اپنی رحمت کی تھی اور جسے ہم نے بہت سے علم و دانش سے نوازا تھا “ (فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَیْنَاہُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاہُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا) ۔
”وَجَدَا“ کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اسی عالم کی تلاش میں تھے اور آخر کار انھوں نے اسے ”پالیا“۔
” عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا“( ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ) ۔ یہ تعبیر بتاتی ہے کہ انسان کے لئے بہترین اعزاز و اعتماد یہ ہے کہ وہ خدا کا سچا بندہ ہو اور یہ مقامِ عبودیت ہی ہے کہ جہاں انسان پر رحمت الٰہی نازل ہوتی ہے اور علوم کے دریچے اس کے دل کے سامنے کھل جاتے ہیں ۔
”مِنْ لَدُنَّا“ کی تعبیر بھی بتاتی ہے کہ اس عالم کا علم معمولی اور عام سا نہیں تھا بلکہ اس جہان کے ایسے اسرار و حوادث کی آگاہی کا ایک حصہ تھا کہ جنھیں صرف خدا جانتا ہے ۔
”عِلْمًا“کی تعبیر نکرہ ہے اور نکرہ ایسے مواقع پر عموماًما تعظیم کے لیے ہوتا ہے ۔ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ اس مرد عالم نے اس علم سے اچھا خاصا حصّہ پایا تھا ۔
یہ کہ زیرِ بحث آیت میں ”رحمة مِنْ عِندِنَا“ سے کیا مراد ہے ۔ اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف تفسیریں ذکر ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مقامِ نبوت کی طرف شارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ عمر طولانی کی طرف اشارہ ہے ۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد شایانِ شان استعداد، عظمت روح اور شرح صدر ہو اور یہ خدا کی طرف سے اس جوانمر کے لیے اس لیے ہوکہ وہ علمِ الٰہی کے حصول کا اہل ہوسکے ۔
یہ کہ اس عالم کا نام ”خضر“تھا ۔ وہ پیغمبر تھا یا نہیں ۔ اس سلسلے میں ہم آئندہ صفحات میں بحث کریں گے ۔
اس وقت حضرت موسیٰ(ع) نے بڑے ادب سے اس عالم بزرگ کی خدمت میں ”عرض کیا: کیا مجھے اجازت ہے کہ میں آپ کی پیروی کروں تاکہ جو علم آپ کو عطا کیا گیا ہے اور جو باعث رشد و صلاح ہے، مجھے بھی تعلیم دیں“(قَالَ لَہُ مُوسیٰ ھَلْ اٴَتَّبِعُکَ عَلیٰ اٴَنْ تُعَلِّمَنِی مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا) ۔
” رُشْدًا“ کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ علم ہدف و مقصد نہیں ہے بلکہ علم تو حصولِ مقصد کا ذریعہ اور خیر و صلاح کے حصول کا وسیلہ ہے ۔ ا یسا ہی علم قدر و قیمت کا حامل ہے اور استاد سے ایسا ہی علم حاصل کرنا چاہیے اور یہی علم مایہٴ افتخار ہے ۔
لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ اس عالم نے موسیٰ(ع) سے کہا: تم میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کرسکو گے (قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِی صَبْرًا) ۔
ساتھ ہی اس کی وجہ اور دلیل بھی بیان کردی اور کہا: ”تم اس چیز پر کیسے صبر کرسکتے ہو جس کے اسرار سے تم آگاہ ہی نہیں“ (وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلیٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِہِ خُبْرًا) ۔
جیسا کہ ہم بعد میں دیکھیں گے یہ عالم اسرار و حوادث کے باطنی علوم پر دسترس رکھتا تھا جبکہ حضرت موسیٰ(ع) نہ باطن پر مامور تھے اور نہ ان کے بارے میں زیادہ آگاہی رکھتے تھے ۔
ایسے مواقع پر ایسا بہت ہوتا ہے کہ حوادث کے ظاہر سے ان کا باطن مختلف ہوتا ہے ۔ بعض اوقات کسی واقعے کا ظاہر احمقانہ اور ناپسندیدہ ہوتا ہے جبکہ باطن میں بہت مقدس ، منطقی اور سوچا سمجھا ہوتا ہے ۔ ایسے مواقع پر جو شخص ظاہر کو یکھتا ہے وہ اس پر صبر نہیں کر پاتا اور اس پر اعتراض کرتا ہے مخالفت کرنے لگتا ہے لیکن وہ استاد کہ جو اسرارِ دروں سے آگاہ ہے اور معاملے کے باطن پر نظر رکھتا ہے وہ بڑے اطمینان اور ٹھنڈے دل سے کام جاری رکھتا ہے اور اعتراض اور واویلے پر کان نہیں دھرتا بلکہ مناسب موقع کے انتظار میں رہتا ہے تاکہ حقیقت امر بیان کرے جبکہ شاگرد بے تاب رہتا ہے لیکن جب اسرار اس پر کھل جاتے ہیں تو اسے پوری طرح سکون و قرار آجاتا ہے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ بات سن کر پریشان ہوئے ۔ انھیں خوف تھا کہ اس عالم بزرگ کا فیض ان سے منقطع نہ ہو لہٰذا انھوں نے وعدہ کیا کہ تمام امور پر صبر کریں گے اور ”کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی کام میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا“ (قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللهُ صَابِرًا وَلَااٴَعْصِی لَکَ اٴَمْرًا) ۔
یہ کہہ کر حضرت موسیٰ(ع) نے پھر انتہائی ادب و احترام اور خدا کی حیثیت پر اپنے بھروسے کا اظہار کیا ۔آپ نے اس عالم سے یہ نہیں کہا کہ میں صابر ہوں بلکہ کہتے ہیں: انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ لیکن چونکہ ایسے واقعات پر صبر کرنا کہ جو ظاہراً ناپسندیدہ ہوں اور انسان جن کے اسرار سے آگاہ نہ ہو کوئی آسان کام نہیں اس لیے اس عالم نے حضرت موسیٰ(ع) کو خبر دار کرتے ہوئے پھر عہد لیا اور ”کہا اچھا اگر تم میرے پیچھے پیچھے آنا چاہتے ہو تو دیکھو! خاموش رہنا اور کسی معاملے پر سوال نہ کرنا جب تک کہ مناسب موقع پر میں خود تم سے بیان نہ کردوں“