Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اور ان کا انجامِ کار ---

										
																									
								

Ayat No : 42-44

: الكهف

وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا ۴۲وَلَمْ تَكُنْ لَهُ فِئَةٌ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا ۴۳هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا ۴۴

Translation

اور پھر اس کے باغ کے پھل آفت میں گھیر دیئے گئے تو وہ ان اخراجات پر ہاتھ ملنے لگا جو اس نے باغ کی تیاری پر صرف کئے تھے جب کہ باغ اپنی شاخوں کے بل اُلٹا پڑا ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اے کاش میں کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بناتا. اور اب اس کے پاس وہ گروہ بھی نہیں تھا جو خدا کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور وہ بدلہ بھی نہیں لے سکتا تھا. اس وقت ثابت ہوا کہ قیامت کی نصرت صرف خدائے برحق کے لئے ہے وہی بہترین ثواب دینے والا ہے اور وہی انجام بخیر کرنے والا ہے.

Tafseer

									اور ان کا انجامِ کار ---
ان کی آپس کی گفتگو ختم ہوگئی ۔ اس خدا پرست شخص کی باتوں کا اس مغرور و بے ایمان دولت مند کے دل پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ اپنے اُنہی جذبات اور طرزِ فکر کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گیا ۔ اسے اس بات کی خبر نہ تھی کہ اس کے باغوں اور سرسبز کھیتیوں کی تباہی کے لیے اللہ کا حکم صادر ہوچکا ہے ۔ اسے خیال نہ تھا کہ وہ اپنے تکبر اور شرک کی سزا اسی جہان میں پالے گا اور اس کا انجام دوسروں کے لیے باعث عبرت بن جائے گا ۔
شاید اس وقت کہ جب رات کی تاریکی ہر چیز پر چھائی ہوئی تھی، عذابِ الٰہی نازل ہوا ۔ تباہ کن بجلی کی صورت میں وحشتناک طوفان کی شکل میں یا ہولناک زلزلے کی صورت میں اللہ کا غذاب نازل ہوا ۔ بہر حال جو کچھ بھی تھا اس نے چند لمحوں میں ترو تازہ باغات، سربفلک درخت اور خوشوں سے لدی کھیتیاں در ہم برہم اور تباہ کردیں ”اور غذابِ الٰہی حکمِ خدا سے ہر طرف سے اس کے ثمرہ پر محیط ہوگیا اور اسے نابو کردیا“(وَاٴُحِیطَ بِثَمَرِہِ) ۔
”احیط“”احاطہ“کے مادہ سے ہے اور ایسے مواقع پر یہ گھیر لینے والے ایسے عذاب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مکمل نابودی ہے ۔
دن چڑھا ۔ باغ کا مالک باغ کی طرف چلا ۔ سرکشی اس کے ذہن میں سمائی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے باغات کی پیداوار سے زیادہ فائدہ اٹھائے کی فکر میں تھا ۔ جب وہ باغ کے قریب پہنچا تو اچانک اس نے وحشت ناک منظر دیکھا ۔ حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی چھاگئی اور وہ وہاں بے حس و حرکت کھڑا ہوگیا ۔
اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ یہ خواب دیکھ رہا ہے یا حقیقت۔ سب درخت اوندھے پڑے تھے ۔ کھیتیاں زیر و زبر ہوچکی تھیں ۔ زندگی کے کوئی آثار وہاں دکھائی نہ دیتے تھے ۔ گویا وہاں کبھی بھی شاداب و سر سبز باغ اور کھیتیاں نہ تھیں ۔ اس کا دل دھڑکنے لگا ۔ چہرے کا رنگ اڑگیا ۔ حلق خشک ہوگیا ۔ اس کے دل و دماغ سے سب غرور و نخوت جاتی رہی ۔ اسے ایسے لگا جیسے وہ ایک طویل اور گہری نیند سے بیدار ہوا ہے ۔ وہ مسلسل اپنے ہاتھ مل رہا تھا ۔ اسے ان اخراجات کا خیال آرہا تھا جو اس نے پوری زندگی میں ان پر صرف کیے تھے ۔ اب وہ سب برباد ہوچکے تھے اور درخت اوندھے گرے پڑے تھے

(فَاٴَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیْہِ عَلیٰ مَا اٴَنفَقَ فِیھَا وَھِیَ خَاوِیَةٌ عَلیٰ عُرُوشِھَا) ۔
اس وقت وہ اپنی فضول باتوں اور بیہوہ سوچوں پر پشیمان ہوا ۔وہ کہتا تھا: کاش میں نے کسی کو اپنے پرودگار کا شریک قرار نہ دیا ہوتا ۔ اے کاش میں نے شرک کی راہ پر قدم نہ رکھا ہوتا (وَیَقُولُ یَالَیْتَنِی لَمْ اٴُشْرِکْ بِرَبِّی اٴَحَدًا) ۔
زیادہ المناک پہلو یہ تھا کہ ان تمام مصائب و آلام کے سامنے وہ تن تنہا کھڑا تھا ”خدا کے علاوہ کوئی نہ تھاکہ جو اس مصیبت عظیم اور اتنے بڑے نقصان پر اس کی مدد کرتا“(وَلَمْ تَکُنْ لَہُ فِئَةٌ یَنصُرُونَہُ مِنْ دُونِ اللهِ ) ۔ اور چونکہ اس کا سارا سرمایہ تو یہی تھا جو برباد ہوگیا تھا ۔ اب اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا ۔ لہٰذا ”وہ خود بھی اپنی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا “(وَمَا کَانَ مُنتَصِرًا) ۔
در حقیقت اس واقعے نے اس کے تمام غرور آمیز تصورات و خیالات کو زمین بوس اور باطل کردیا ۔ کبھی تو وہ کہتا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ عظیم دولت و سرمایہ کبھی فنا ہوگا لیکن آج وہ اپنی آنکھوں سے اس کی تباہی دیکھ رہا تھا ۔
دوسری طرف وہ اپنے خدا پرست اور با ایمان دوست غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تجھ سے زیادہ قوی ہوں ۔ میرے یارو مددگار زیادہ ہیں لیکن اس واقعے کے بعد اس نے دیکھا کہ کوئی بھی اس کا مددگار نہیں ہے ۔
اسے کبھی اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی بہت قوت ہے لیکن جب یہ واقعہ رونما ہوا اور اس نے دیکھا کہ کچھ بھی اس کے بس میں نہیں تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا کیونکہ اب وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے بس میں اتنا بھی نہیں کہ وہ اس نقصان کے کچھ حصّے کی بھی تلافی کرسکے ۔
اصولی طور پر مال ودولت کے گرد و جمع ہوجانے والے لوگ تو مٹھاس پر مکھیوں کے جمع ہونے کی مانند ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ بُرے دنوں میں یہ لوگ اس کا سہارا بنیں گے لیکن جب مال و دولت ختم ہوجائے تو وہ بھی نظر نہیں آتے ۔ کیونکہ ان کی دوستی کوئی قلبی اور روحانی بنیاد پر تو ہوتی نہیں وہ تو مادی ہوتی ہے اور جب مادی نعمت ختم ہوجاتی ہے تو وہ بھی دکھائی نہیں دیتے ۔
لیکن جو بھی ہوا اب تو وقت گزر چکا تھا اور کسی سنگین مصیبت کو دیکھ کر جو بیداری پیدا ہوتی ہے وہ تو اضطراری حیثیت رکھتی ہے ۔ ایسی بیداری تو فرعون اور نمرود جیسے افراد میں بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے بھی اس کا کوئی فائدہ نہ تھا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس وقت اس نے کہا:
”لم اشرک بربی احداً“
کاش! میں اپنے رب کا کسی کو شریک نہ گرداننا ۔
یہی بات تو اس کے دوست نے کہی تھی ۔ لیکن اس کا یہ ایمان سلامتی کے ماحول میں تھا اور اس کا یہ اظہار ِ مصیبت کے موقع پر تھا ۔
”یہ وہ وقت تھا کہ یہ حقیقت پھر پایہٴ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ ولایت و قدرت خدا کے لیے ہے وہ خدا کہ جو عین حق ہے“(ھُنَالِکَ الْوَلَایَةُ لِلّٰہِ الْحَقِّ) ۔
جی ہاں! اس موقع پر یہ پوری طرح واضح ہوگیا کہ تمام نعمتیں اس کی طرف سے ہیں اور جو کچھ اس کا ارادہ ہو وہی کچھ ہوتا ہے اور اس کے لطف و کرم پر بھروسہ کیے بغیر کچھ نہیں بنتا ۔
جی ہاں وہی ہے کہ جس کے ہاں اطاعت گزاروں کے لیے بہترین جزاء و ثواب ہے اور بہترین عاقبت و آخرت ہے (ھُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَخَیْرٌ عُقْبًا) ۔
پس اگر انسان کسی سے دل لگانا چاہتا ہے اور کسی پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے اور کسی سے جزاء کی امید باندھنا چاہتا ہے تو کیا ہی بہتر ہے کہ وہ خدا سے لَو لگائے، اس پر بھروسہ کرے اور اس کے لطف و احسان کی امید رکھے ۔