Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ دولت کا غرور

										
																									
								

Ayat No : 42-44

: الكهف

وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَىٰ مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا ۴۲وَلَمْ تَكُنْ لَهُ فِئَةٌ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا ۴۳هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا ۴۴

Translation

اور پھر اس کے باغ کے پھل آفت میں گھیر دیئے گئے تو وہ ان اخراجات پر ہاتھ ملنے لگا جو اس نے باغ کی تیاری پر صرف کئے تھے جب کہ باغ اپنی شاخوں کے بل اُلٹا پڑا ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اے کاش میں کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ بناتا. اور اب اس کے پاس وہ گروہ بھی نہیں تھا جو خدا کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور وہ بدلہ بھی نہیں لے سکتا تھا. اس وقت ثابت ہوا کہ قیامت کی نصرت صرف خدائے برحق کے لئے ہے وہی بہترین ثواب دینے والا ہے اور وہی انجام بخیر کرنے والا ہے.

Tafseer

									۱۔ دولت کا غرور:

اس داستان میں ہم نے دولت کے غرور کی زندہ تصویر یکھی ہے اس میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ غرور کا انجام کیا ہے، وہ غرور کہ جس کی انتہا شرک اور کفر ہے ۔
کم ظرف لوگ جب کسی مقام پر جا پہنچتے ہیں او رمقام و دولت کے لحاظ سے دوسروں پر کچھ برتری حاصل کرلیتے ہیں تو اکثر اوقات غرور کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ان وسائل کے بل بوتے پر وہ دوسروں کے سامنے بڑے بنتے پھر تے ہیں ۔ مکھیوں کی طرح بھنبھنانے والے لوگ جب ان کے گرد جمع ہوجائیں تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر ان کا اثر و رسوخ قائم ہوگیا ہے ۔ اسی کو قرآن ۔”انا اکثر منک مالاً و اعز نفراً“میں بیان کررہا ہے ۔
دنیا کا عشق رفتہ رفتہ ان میں یہ خیال پیدا کرنے لگتا ہے کہ یہ دنیا جاودان ہے اور پھر وہ یہ کہنے لگتے ہیں:
”ما اظن ان تبید ہٰذہ ابداً“
”میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی ختم ہوگا“۔
اگر انسان مادی نیا کی جاودانی کا قائل ہوجائے تو اس سے قیامت پر ایمان کی نفی ہوتی ہے لہٰذا ایسے لوگ کہنے لگتے ہیں:
”وما اظن الساعة قائمة“
”میرا نہیں خیال کہ کبھی قیامت بھی آئے گی“۔
ان کی خود پسندی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مقربِ بارگاہِ الٰہی سمجھنے لگتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بہت زیاہ مقام و مرتبہ ہے اور کہنے لگتے ہیں کہ اگر ہمیں اللہ کی طرف واپس جانا بھی پڑا اور معاد و قیامت کا کوئی وجود ہوا تو پھر بھی وہاں ہمارا مقام یہاں سے بہتر ہوگا ”ولئن رددت الیٰ ربّی لا جدن خیراً منھا منقلباً“
یہ چار مراحل کم پیش تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تمام دنیا پرست اہلِ اقتدار اور طاقتوروں میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کے انحراف کا آغاز دنیا پرستی سے ہوتا ہے اور شرک، بت پرستی اور انکارِ قیامت پر ختم ہوتا ہے کیونکہ وہ مادی طاقت کو بُت کی طرح پوجتے ہیں اور اس کے علاوہ سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔