مستضعفین کے مقابلے میں مستکبرین کا موٴقف
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا رَجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ۳۲كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا ۳۳وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَأَعَزُّ نَفَرًا ۳۴وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَٰذِهِ أَبَدًا ۳۵وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَىٰ رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا ۳۶
اور ان کفار کے لئے ان دو انسانوں کی مثال بیان کردیجئے جن میں سے ایک کے لئے ہم نے انگور کے دو باغ قرار دیئے اور انہیں کھجوروں سے گھیر دیا اور ان کے درمیان زراعت بھی قرار دے دی. پھر دونوں باغات نے خوب پھل دیئے اور کسی طرح کی کمی نہیں کی اور ہم نے ان کے درمیان نہر بھی جاری کردی. اور اس کے پاس پھل بھی تھے تو اس نے اپنے غریب ساتھی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے مال کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہوں اور افراد کے اعتبار سے بھی زیادہ باعزت ہوں. وہ اسی عالم میں اپنے نفس پر ظلم کررہا تھا اپنے باغ میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ میں تو خیال بھی کرتا ہوں کہ یہ کبھی تباہ بھی نہیں ہوسکتا ہے. اور میرا گمان بھی نہیں ہے کہ کبھی قیامت قائم ہوگی اورپھر اگر میں پروردگار کی بارگاہ میں واپس بھی گیا تو اس سے بہتر منزل حاصل کرلوں گا.
گزشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا پرست کس طرح سے کوشش کرتے ہیں کہ وہ تہی دست اور غریب مردانِ حق سے دور دور رہیں ۔ ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ دوسرے جہاں میں ان کا انجام کیا ہوگا ۔
زیر بحث آیتوں میں دو دوستوں یادو بھائیوں کی داستان مثال کے طور پر بیان کی گئی ہے ۔ ان میں سے ہر ایک مستکبرین اور مستضعفین کا ایک نمونہ تھا ۔ ان کی طرزِ فکر اور ان کی گفتار کردار ان دونوں گروہوں کے موقف کا ترجمان تھا ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: اے رسول! ان سے دو شخصوں کی مثال بیان کرو کہ جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دیئے تھے ۔ ان میں طرح طرح کے انگور تھے ۔ ان کے گردا گرد کھجور کے درخت تھے آسمان سے باتیں کررہے تھے ۔ ان دونوں باغوں کے درمیان ہری بھری کھیتی تھی (وَاضْرِبْ لَھُمْ مَثَلًا رَجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاٴَحَدِھِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاھُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمَا زَرْعًا) ۔ ایسے باغ اور کھیتیاں جن میں ہر چیز خوب تھی ۔ انگور بھی تھے، کھجوریں بھی تھیں ۔ درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے اور کھیتیوں کے پودے خوب خوشہ دار تھے ۔ ان دونوں باغوں میں کسی چیز کی کمی نہ تھی (کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ آتَتْ اٴُکُلَھَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْہُ شَیْئًا) ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پانی جو ہر چیز کے لیے مایہٴ حیات ہے، خصوصاً باغات و زراعت کے لئے، انھیں فراہم تھا ۔ کیونکہ دونوں کے درمیان ہم نے ایک نہر جاری کی تھی (وَفَجَّرْنَا خِلَالَھُمَا نَھَرًا) ۔
اس طرح سے ان باغات اور کھیتیوں کے مالک کو خوب پیدا وار ملتی تھی (وَکَانَ لَہُ ثَمَرٌ) ۔
دنیا کا مقصد پورا ہو رہا اور تُو کم ظرف اور بے وقعت انسان اپنی دنیاوی مراد پاکر غرور و تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سرکشی کرنے لگتا ہے ۔ پہلے پہلے وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے ۔ باغات کے اس مالک نے بھی اپنے دوست سے بات کرتے ہوئے کہا: میں دولت اور سرمائے کے لحاظ سے تجھ سے برتر ہوں، میری آبرو، غزت اور حیثیت تجھ سے زیادہ ہے (فَقَالَ لِصَاحِبِہِ وَھُوَ یُحَاوِرُہُ اٴَنَا اٴَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَاٴَعَزُّ نَفَرًا) ۔اور افرادی قوت بھی میرے پاس بہت زیادہ ہے ۔ مال و دولت اور اثر و رسوخ میرا زیادہ ہے ۔ معاشرے میں میری حیثیت زیادہ ہے ۔ تو میرے مقابلے میں کیا ہے اور تُو کس کھاتے میں ہے؟
آہستہ آہستہ اس کے خیالات بڑھتے چلے گئے اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ دنیا کو جاودان، مال و دولت کو ابدی اور مقام و حشمت کو دائمی خیال کرنے لگا ۔ وہ مغرور تھا حالانکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کررہا تھا ۔ ایسے میں اپنے باغ میں داخل ہوا اس نے ایک نگاہ سر سبز درختوں پر ڈالی جن کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے خم ہوگئی تھیں ۔ اس نے اناج کی ڈالیوں کو دیکھا، نہر کے آبِ رواں کی لہروں پر نظر کی کہ جو چلتے چلتے درختوں کو سیراب کررہا تھا ۔ ایسے میں وہ سب کچھ بھول گیا اور کہنے لگا ”میرا خیال نہیں کہ میرا باغ بھی کبھی اجڑے گا“(وَدَخَلَ جَنَّتَہُ وَھُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ قَالَ مَا اٴَظُنُّ اٴَنْ تَبِیدَ ھٰذِہِ اٴَبَدًا) ۔
پھر اس نے اس سے بھی آگے کی بات کی ۔ اس جہان کا دائمی ہونا چونکہ عقیدہٴ قیامت کے منافی ہے لہٰذا وہ انکارِ قیامت کا سوچنے لگا ۔ اس نے کہا:میرا ہر گز نہیں خیال کہ کوئی قیامت بھی ہے (وَمَا اٴَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً) ۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو بعض لوگوں نے جی بہلانے کے لیے بنا رکھی ہیں ۔
پھر مزید کہنے لگا: فرض کیا قیامت ہو بھی اور میں اپنی اس حیثیت اور مقام کے ساتھ اپنے رب کے پاس جاؤں بھی تو یقینا اس سے بہتر جگہ پاؤں گا (وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَی رَبِّی لَاٴَجِدَنَّ خَیْرًا مِنْھَا مُنقَلَبًا) ۔
وہ ان خام خیالوں میں غرق تھا اور ایک کے بعد دوسری فضول بات کرتا جاتا تھا کہ اس کا با ایمان ساتھی بول اٹھا ۔ (اس نے جو باتیں کیں ان کا ذکر آئندہ آیات میں آرہا ہے) ۔