Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۵۔ ایک سوال کا جواب

										
																									
								

Ayat No : 21-24

: الكهف

وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا ۖ رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا ۲۱سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا ۲۲وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ۲۳إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا ۲۴

Translation

اور اس طرح ہم نے قوم کو ان کے حالات پر مطلع کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچاّ ہے اور قیامت میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے جب یہ لوگ آپس میں ان کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے اور یہ طے کررہے تھے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنادی جائے-خدا ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے اور جو لوگ دوسروں کی رائے پر غالب آئے انہوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے. عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتاّ تھا اور بعض کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ سب صرف غیبی اندازے ہوں گے اور بعض تو یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا-آپ کہہ دیجئے کہ خدا ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے اورچند افراد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے لہذا آپ ان سے ظاہری گفتگو کے علاوہ واقعا کوئی بحث نہ کریں اور ان کے بارے میں کسی سے دریافت بھی نہ کریں. اور کسی شے کے لئے یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل کرنے والا ہوں. مگر جب تک خدا نہ چاہے اور بھول جائیں تو خدا کو یاد کریں اور یہ کہیں کہ عنقریب میرا خدا مجھے واقعیت سے قریب تر امر کی ہدایت کردے گا.

Tafseer

									۵۔ ایک سوال کا جواب:

زیرِ بحث آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ جس وقت خدا کو بھول جاؤ اور پھر تمھیں یاد آئے تو اسے یاد کرو ۔(1) یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر انشاء اللہ کہنے کی صورت میں اس کی مشیت پر بھروسہ نہ کرو تو جس وقت تمھیں یاد آئے اس کی تلافی کرو ۔
اس آیت کی تفسیر میں اہلِ بیت علیہم السلام سے جو متعدد روایات منقول ہیں ان سے بھی اس مفہوم پر تاکید ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ اگر ایک سال گزر نے کے بعد بھی تمھیں یاد آئے انشاء اللہ نہیں کہا تھا تو گزشتہ کی تلافی کرو ۔(2)
اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ بھول گئے ہیں حالانکہ اگر ان کی فکر و نظر میں نسیان آجائے تو ان کی گفتار اور اعمال پر کامل اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور انبیاء و آئمہ (ع) کے خطا اور نسیان سے معصوم ہونے کی یہی دلیل ہے یہاں تک کہ موضوعاتِ خارجیہ میں بھی ۔
لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بہت سی قرآنی آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ روئے سخن انبیاء کی طرف ہے لیکن مقصو و منظور عام لوگ ہوتے ہیں ۔ اس بات سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے ۔ اس طرح کی گفتگو کے لیے عربوں کی مشہور ضرب المثل ہے:
”ایّاک اعنی واسمعی یا جارة“
میری مراد تو ہے جو میرے پاس ہے اور اے پڑوسن تو بھی سن لے ۔(3) 
(بعض بزرگ مفسرین نے اس سوال کا ایک اور جواب دیا ہے جسے ہم سورہٴ انعام کی آیت ۶۸ کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں ۔ پانچویں جلد کی طرف رجوع کیجئے) ۔

 

 

1و 2۔ نور الثقلین، ج ۳ ص ۲۵۴-
3۔ فارسی میں اس کے متبادل یہ ضرب المثل ہے:
در بتومی گویم دیوار تتو بشنو
اے ردوازے تجھے کہتا ہوں اور اے دیوار تو سن لے ۔
اردو میں اس کے لیے یہ ضرب المثل ہے: 
کہوں دِھی کو بہو تو کان رکھیو
نیز پنجابی زبان میں اس مفہوم کو شاید سب سے عمدہ ادا کیا گیا ہے:
کہنیاں دھی نوں تے سنانیاں تو نہہ نوں
(ثاقب)