Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۴۔ تمام چیزیں مشیٴت الٰہی کے سہارے پر ہیں

										
																									
								

Ayat No : 21-24

: الكهف

وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا ۖ رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا ۲۱سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا ۲۲وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ۲۳إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا ۲۴

Translation

اور اس طرح ہم نے قوم کو ان کے حالات پر مطلع کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچاّ ہے اور قیامت میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے جب یہ لوگ آپس میں ان کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے اور یہ طے کررہے تھے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنادی جائے-خدا ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے اور جو لوگ دوسروں کی رائے پر غالب آئے انہوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے. عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتاّ تھا اور بعض کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ سب صرف غیبی اندازے ہوں گے اور بعض تو یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا-آپ کہہ دیجئے کہ خدا ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے اورچند افراد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے لہذا آپ ان سے ظاہری گفتگو کے علاوہ واقعا کوئی بحث نہ کریں اور ان کے بارے میں کسی سے دریافت بھی نہ کریں. اور کسی شے کے لئے یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل کرنے والا ہوں. مگر جب تک خدا نہ چاہے اور بھول جائیں تو خدا کو یاد کریں اور یہ کہیں کہ عنقریب میرا خدا مجھے واقعیت سے قریب تر امر کی ہدایت کردے گا.

Tafseer

									۴۔ تمام چیزیں مشیٴت الٰہی کے سہارے پر ہیں:

آئندہ سے مربوط ارادے اور کام کے ساتھ ”انشاء اللہ“کہنا نہ صرف بارگاہِ خداوندی کے لیے ادب و احترام کا اظہار ہے بلکہ اس اہم حقیقت کا بیان بھی ہے کہ ہم اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں رکھتے، جو کچھ ہے اسی کی طرف سے ہے ۔ مستقل بالذات خدا ہے اور ہم سب اسی کے سہارے پر ہیں ۔ اگر ساری دنیا کی تلواریں چل پڑیں لیکن اللہ کا ارادہ نہ ہو تو وہ ایک رگ بھی نہیں کاٹ سکتیں اور اگر اس کا ارادہ ہو تو ہر چیز تیزی سے واقع ہوجائے یہاں تک کہ وہ آئیے کو پتھر کے پہلو میں محفوظ رکھ سکتا ہے ۔
یہ درحقیقت ”توحیدِ افعالی“کا مفہوم ہے یعنی اگر چہ انسان ارادہ، اختیار اور آزادی رکھتا ہے لیکن ہر چیز اور ہر کام اللہ کی مشیٴت کے ساتھ وابستہ ہے ۔
یہ تعبیر ہمیں کاموں میں خدا کی طرف زیادہ توجہ دلانے کے علاوہ طاقت و ہمت بھی بخشتی ہے اور عمل کی پاکیزگی اور صحت کی دعوت بھی دیتی ہے ۔
چند ایک روایات میں ہے کہ اگر کوئی شخص آئندہ کے بارے میں کوئی بات انشاء اللہ کے بغیر کہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اور اپنی حمایت اس سے اٹھا لیتا ہے ۔(1)
امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث مروی ہے ۔ اس میں ہے:
امام(ع) نے ایک خط لکھنے کا حکم دیا ۔ خط اختتام کو پہنچا تو آپ(ع) کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ امام(ع) نے دیکھا کہ اس میں ”انشاء اللہ“نہیں تھا، تو فرمایا:
”کیف رجوتم ان یتم ھٰذا و لیس فیہ استثناء، انظر و اکل موضع لا یکون فیہ استثناء فاستثنوا فیہ“
تمھیں ا س کے انجام پاجانے کی امید کیسے ہوئی جبکہ اس میں انشاء اللہ نہیں تھا ۔ اس میں دیکھو جہاں جہاں پر (ضرورت ہے اور)نہیں ہے وہاں وہاں پر انشاء اللہ لکھو ۔

 

1۔ نور الثقلین، ج ۳ ص ۲۵۴-