Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔ آرام گاہ کے پاس مسجد

										
																									
								

Ayat No : 21-24

: الكهف

وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا ۖ رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا ۲۱سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا ۲۲وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ۲۳إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشَدًا ۲۴

Translation

اور اس طرح ہم نے قوم کو ان کے حالات پر مطلع کردیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ سچاّ ہے اور قیامت میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہے جب یہ لوگ آپس میں ان کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے اور یہ طے کررہے تھے کہ ان کے غار پر ایک عمارت بنادی جائے-خدا ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے اور جو لوگ دوسروں کی رائے پر غالب آئے انہوں نے کہا کہ ہم ان پر مسجد بنائیں گے. عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتاّ تھا اور بعض کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ سب صرف غیبی اندازے ہوں گے اور بعض تو یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا-آپ کہہ دیجئے کہ خدا ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے اورچند افراد کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے لہذا آپ ان سے ظاہری گفتگو کے علاوہ واقعا کوئی بحث نہ کریں اور ان کے بارے میں کسی سے دریافت بھی نہ کریں. اور کسی شے کے لئے یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل کرنے والا ہوں. مگر جب تک خدا نہ چاہے اور بھول جائیں تو خدا کو یاد کریں اور یہ کہیں کہ عنقریب میرا خدا مجھے واقعیت سے قریب تر امر کی ہدایت کردے گا.

Tafseer

									۳۔ آرام گاہ کے پاس مسجد:

تعبیرِ قرآن کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ آخر کار اصحابِ کہف نے زندگی کو خیر باد کہا اور سپردِ خاک ہوئے اور لفظ ”علیھم“(ان پر) اس دعویٰ کی دلیل ہے ۔
اس کے بعد ان کے عقیدت مندوں نے ارادہ کیا کہ ان کی آرام گاہ کے پاس عبادت خانہ بنائیں ۔ قرآن نے زیر بحث آیات میں ان کے اس ارادے کو موافقت کے لہجے میں بیان کیا ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ بزرگانِ دین کی قبور کے احترام میں وہابیوں کے خیال کے برعکس مسجد اور عبادت خانہ بنانا نہ صرف حرام نہیں ہے بلکہ اچھا اور پسندیدہ کام ہے ۔
اصولی طور پر ایسی عمارتیں کہ جو اہم اور عظیم شخصیات کی یاد کو زنددہ رکھیں ان کی تعمیر کا سلسلہ ہمیشہ سے ساری دنیا کے لوگوں میں رہا ہے اور آج بھی ہے ۔ در اصل اس کام سے ان بزرگوں کے بارے میں ایک طرح سے قدر دانی اور احسان شناسی کا اظہار ہوتا ہے نیز جیسے کام انھوں نے کیے ان کی طرف رغبت اور شوق دلانے کا مفہوم بھی اس میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ اسلام نے نہ صرف اس کام سے منع نہیں کیا بلکہ اسے جائز شمار کیا ہے ۔
اس قسم کی عمارتوں کا وجودد ایسی شخصیتوں ، ان کے کام اور ان کی تاریخ کے لیے ایک تاریخی سند ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن انبیاء و مرسلین اور دیگر شخصیات کی قبریں نہیں ملتیں ان کی تاریخ بھی مشکوک ہوگئی ہے اور ایک سوال بن کر رہ گئی ہے ۔
یہ بھی واضح ہے کہ اس قسم کی عمارتات ہرگز توحید کی نفی نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے وجود سے اس بات کی ذرہ بھر نفی ہوتی ہے کہ عبادت فقط اللہ کے لیے مخصوص ہے کیونکہ احترام کرنا اور ہے اور عبادت کرنا اور ہے ۔
البتہ یہ ایک طویل بحث ہے جس کا یہ موقع نہیں ہے ۔