۲۔ علم و ایمان کا ربط
وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۱۰۵وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا ۱۰۶قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ۱۰۷وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا ۱۰۸وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ۩ ۱۰۹
اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیاہے اور یہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجا ہے. اور ہم نے قرآن کو متفرق بناکر نازل کیا ہے تاکہ تم تھوڑا تھوڑا لوگوں کے سامنے پڑھو اور ہم نے خود اسے تدریجا نازل کیا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن کو اس کے پہلے علم دے دیا گیا ہے ان پرتلاوت ہوتی ہے تو منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں. اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وعدہ یقینا پورا ہونے والا ہے. اور وہ منہ کے بل گر پڑتے ہیں روتے ہیں اوروہ قرآن ان کے خشوع میں اضافہ کردیتا ہے.
مندرجہ بالا آیات سے جو دوسرا واضح سبق حاصل کیا جاسکتا ہے وہ ہے علم اور ایمان کا باہمی ربط ۔قرآن کہتا ہے:
تم ان آیات پر ایمان لاؤ جو صاحبان علم ہیں وہ نہ صرف ان پر ایمان لائے ہیں بلکہ عشق الٰہی اس طرح سے ان کے دل میں بھڑک رہا ہے کہ وہ بے اختیار اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔ اشکوں کا ایک سیلاب ان کے رخساروں پر جاری ہوجاتا ہے اور ہر لحظہ ان کا خضوع و خشوع بڑھتا رہتا ہے اور ان کے دل میں ان آیات کا احترام فزوں تر ہوتا رہتا ہے ۔
یعنی۔ یہ تو جاہل ہیں کہ جو حقائق کو دیکھتے ہیں تو کبھی ایمان کی طرف راغب بھی ہوں تو ان کا ایمان کمزور نا پائدار ہر ہوگا اور عشق، جذبہ اور حرارت سے خالی ہوگا ۔
علاوہ ازیں یہ ان کے بیہودہ مفوضے کی پھر تردید ہے کہ جن کا خیال ہے دین انسان کی جہالت کی وجہ سے ہے ۔ قرآن مجید اس دعویٰ کے برخلاف مختلف مواقع پر تاکید کرتا ہے کہ علم و ایمان ہر جگہ اکھٹے ہوتے ہیں اور گہرا مستحکم ایمان سایہ علم کے بغیر ممکن نہیں اور علم بھی اعلیٰ تر اور بالا تر مراحل میں ایمان سے کمک حاصل کرتا ہے (غور کیجئے گا)۔