Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ تعلیمی و تربیتی پروگرام

										
																									
								

Ayat No : 105-109

: الاسراء

وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ۱۰۵وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا ۱۰۶قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ۱۰۷وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا ۱۰۸وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا ۩ ۱۰۹

Translation

اور ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیاہے اور یہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے اور ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجا ہے. اور ہم نے قرآن کو متفرق بناکر نازل کیا ہے تاکہ تم تھوڑا تھوڑا لوگوں کے سامنے پڑھو اور ہم نے خود اسے تدریجا نازل کیا ہے. آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن کو اس کے پہلے علم دے دیا گیا ہے ان پرتلاوت ہوتی ہے تو منہ کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں. اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وعدہ یقینا پورا ہونے والا ہے. اور وہ منہ کے بل گر پڑتے ہیں روتے ہیں اوروہ قرآن ان کے خشوع میں اضافہ کردیتا ہے.

Tafseer

									۱۔ تعلیمی و تربیتی پروگرام:
 


زیر بحث آیات سے ایک اہم درس جو حاصل ہورہا ہے یہ ہے کہ ثقافتی، تمدنی، فکری اور ہر قسم کے اجتماعی انقلاب کے لیے تربیتی پروگرام ضروری ہے کیونکہ اگر ایسا مرتب و منظم پروگرام نہ ہو اور پھر ہر مرحلے میں اس پر عملدر آمد نہ ہو تو شکست یقینی ہے ۔ یہاں تک کہ قران مجید یکجا اور یکبار رسول اللہ پر نازل نہیں ہوا اگر چہ علم خدا میں یکجا ہی تھا اور رسول اکرم کے سامنے شبِ قدر میں مجموعی صورت میں پیش ہوا تھا لیکن اس کا نزول اجرائی مختلف اوقات میں دقیق پروگرام کے تحت ۲۳ سال کی مدت میں مکمل ہوا ۔
لہٰذا جب خدا اپنی بے پایان قدرت و علم کے باوجود اس طرح کرتا ہے تو انسانوں کی ذمہ داری اس سے واضح ہوجاتی ہے ۔
اصولی طور پر یہ ایک قانون و سنت الٰہی ہے کہ جو نہ فقط عالم تشریع میں بلکہ عالم تکوین میں بھی جاری و ساری ہے ۔ کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ کوئی بچہ ایک ہی رات میں ماں کے بطن سے پیدا ہو گیا ہو یا کوئی پھل درخت پر گھنٹے بھر میں پک کر میٹھا ہوگیا ہو ۔ لہٰذا یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ کسی معاشرے کی فکری، ثقافتی، تمدنی یا اقتصادی و سیاسی لحاظ سے رات بھر میں ساری اصلاح ہوجائے ۔
اس بات سے یہ بھی سمجھنا چاہیےٴ کہ اگر ہم مختصر مدت میں اپنی مساعی کا کوئی نتیجہ نہ دیکھ پائیں تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیےٴ اور کوشش جاری رکھنا چاہیےٴ اور ہمیں اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیےٴ کہ حقیقی اور مکمل کامیابیاں ہمیشہ طویل عرصے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہیں ۔