۳۔ آیت میں ”ارض“سے کیا مراد ہے؟
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا ۱۰۱قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ۱۰۲فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ جَمِيعًا ۱۰۳وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ۱۰۴
اور ہم نے موسٰی کو نوکِھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو کہ جب موسٰی ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہہ دیا کہ میں تو تم کو سحر زدہ خیال کررہا ہوں. موسٰی نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ سب معجزات آسمان و زمین کے مالک نے بصیرت کا سامان بناکر نازل کئے ہیں اور اے فرعون میں خیال کررہا ہوں کہ تیری شامت آگئی ہے. فرعون نے چاہا کہ ان لوگوں کو اس سرزمین سے نکال باہر کردے لیکن ہم نے اس کو اس کے ساتھیوں سمیت دریا میں غرق کردیا. اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہوجاؤ پھر جب آخرت کے وعدہ کا وقت آجائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے.
۳۔ آیت میں ”ارض“سے کیا مراد ہے؟
زیر نظر آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ دشمن پر کامیابی کے بعد اب تم اس زمین پر رہو سہو جس کے بارے میں تم سے عہد لیا گیا ہے ۔
کیا اس سے مراد مصر کی سرزمین ہے؟
(قبل کی آیت میں یہی لفظ مصر کی سرزمین کے لیے آیا ہے ۔ مذکورہ آیت کہتی ہے کہ فرعون انہیں اس زمین سے نکالتا چاہتا تھا اور دوسری آیات بھی کہتی ہیں کہ بنی اسرائیل فرعونیوں کے وارث ہوئے)۔
یا پھر کیا ”ارض“یہاں فلسطین کی مقدس سرزمین کی طرف اشارہ ہے؟
کیونکہ اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل فلسطین کی طرف گئے اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اس سرزمنی میں داخل ہوں ۔
ہم بعید نہیں سمجھتے کہ یہاں دونوں علاقے مراد ہوں کیونکہ قرآن کے مطابق بنی اسرائیل آلِ فرعون کی زمینوں کے بھی وارث ہوئے اور سرزمنی فلسطین کے بھی مالک بنے ۔