۲۔ کیا سوال کرنے والے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم تھے؟
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءَهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا ۱۰۱قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنْزَلَ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ۱۰۲فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ جَمِيعًا ۱۰۳وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ۱۰۴
اور ہم نے موسٰی کو نوکِھلی ہوئی نشانیاں دی تھیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو کہ جب موسٰی ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہہ دیا کہ میں تو تم کو سحر زدہ خیال کررہا ہوں. موسٰی نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ سب معجزات آسمان و زمین کے مالک نے بصیرت کا سامان بناکر نازل کئے ہیں اور اے فرعون میں خیال کررہا ہوں کہ تیری شامت آگئی ہے. فرعون نے چاہا کہ ان لوگوں کو اس سرزمین سے نکال باہر کردے لیکن ہم نے اس کو اس کے ساتھیوں سمیت دریا میں غرق کردیا. اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہوجاؤ پھر جب آخرت کے وعدہ کا وقت آجائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے.
۲۔ کیا سوال کرنے والے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم تھے؟
زیر بحث آیات کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ پیغمبرِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ نبی اسرائیل سے حضرت موسیٰ(علیه السلام) کے نو معجزات کے بارے میں سوال کریں کہ آلِ فرعون نے کس طرح سے معجزات دیکھنے کے باوجود بہانے بنائے اور حضرت موسیٰ(علیه السلام) کی حقانیت قبول نہ کی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی صاحب علم و عقل ہستی کو ایسے سوال کی ضرورت نہ تھی، سمجھتے ہیں کہ سوال کرنے کے لیے دوسرے مخاطبین کو حکمدیا گیا تھا ۔
لیکن ۔اگر ہم اس امر کی طرف توجہ کریں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو یہ سوال اپنے لیے نہیں کرنا تھا بلکہ اس لیے تھا کہ مشرکین یہ بات مان لیں لہٰذا اس میں کوئی مانع نہیں کہ سوال خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہوتا کہ مشرکین جان لیں کہ اگر پیغمبرِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ان کے طرح طرح کے تقاضے قبول نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تقاضے حق طلبی کے لیے نہ تھے بلکہ ہٹ دھرمی ، تعصب اور عناد پر مبنی تھے جس کی مثال حضرت موسیٰ اور فرعون کے واقعے میں موجود ہے ۔