Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تجھے جوکچھ حاصل ہے اس کی رحمت سے ہے

										
																									
								

Ayat No : 86-87

: الاسراء

وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا ۸۶إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا ۸۷

Translation

اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ آپ کو وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے اسے اُٹھالیں اور اس کے بعد ہمارے مقابلہ میں کوئی سازگار اور ذمہ دار نہ ملے. مگر یہ کہ آپ کے پروردگار کی مہربانی ہوجائے کہ اس کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے.

Tafseer

									تجھے جوکچھ حاصل ہے اس کی رحمت سے ہے

گزشتہ آیات میں قرآن کے بارے میں گفتگو تھی، زیرِ نظر دو آیات میں اس سلسلے کی بات کی گئی ہے، فرمایا گیا ہے : ہم اگرچاہیںتو جو کچھ تجھے وحی کی صورت میں دیا گیا ہے وہ تجھ سے لے لیں(وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالَّذِی اٴَوْحَیْنَا إِلَیْک)، اور ایسا ہوجائے تو پھر تو ہمارے مقابلے میں ،کوئی حمایتی نہ پائے گا ( ثُمَّ لَاتَجِدُ لَکَ بِہِ عَلَیْنَا وَکِیلًا)۔
ہم ہی نے تجھے یہ علوم بخشے ہیں تاکہ تو لوگوں کا ہادی ورہبر بنے اور ہم ہی اگر مصلحت سمجھیں تو یہ تجھ سے واپس لے لیں اور اس میں کسی شخص کو کوئی دخل اور تصرف نہیںہے ۔
گزشتہ آیات سے ان آیات کے ربط کے سلسلے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے علاوہ یہ احتمال بھی ہے کہ گزشتہ بحث کے آخری جملے میں ہے:
تمیں صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے ۔
زیرِ بحث آیت میں ہے کہ خدا نے علم کا جو حصہ پیغمبر کو دیا ہے اگر چاہے تو وہ بھی واپس لے سکتا ہے لہٰذا تمہاری ہر چیز یہاں تک کہ تمہارا علم اور آگہی بھی اُسی کی طرف سے ہے ۔
بعد والی آےت استثناء کی صورت میں آئی ہے،اس میں فرمایا گیا ہے: اگر یہ علم تجھ سے واپس نہیں لیتے تو یہ تیرے رب کی رحمت ہے( إِلاَّ رَحْمَةً مِنْ رَبِّکَ)، خود تیری ہدایت ونجات کے لئے بھی رحمت ہے اور عالمِ بشریت کی ہدایت ونجات کے لئے بھی یہ رحمت درحقیقت اسی رحمتِ خلقت کا تسلسل ہے ۔
وہ خدا کہ جس نے عام اور خاص رحمت کے تقاضے کے مطابق انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں لباسِ ہستی عطا کیا، کیا وہ لباس کہ جو تکامل و ارتقاء کے لئے بہترین ہے، اسی خدا نے راہِ حیات طے کرنے کے لئے اپنی رحمت کے تقاضے پر ان کو نہیں دیا، آگاہ، معصوم، انتھک، ہمدرد، مہربان اور بااستقامت رہبران کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے،یہی رحمت ہے کہ جس کا تقاضا ہے کہ روئے زمین کبھی حجتِ خدا سے خالی نہ رہے ۔
آیت کے آخر میں تاکید کے طور پر یا گزشتہ بات کی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے:تیرے رب کا فضل تجھ پر بہت زیادہ ہے ( إِنَّ فَضْلَہُ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیرًا)۔
ایک طرف تو تیری عبادت، تہذیبِ نفس اور جہاد نے تیرے دل کی آبیاری کی اور یہ اس کے فضل کا سبب بنی اور دوسری طرف ایک رہبر کے لئے انسانوں کی ناگزیر احتیاج کے تقاضے پرتجھ پر خدا کا انتہائی فضل ہوا، اس نے علم کے دروازے تیرے لئے وا کئے، تجھے انسانی ہدایت کے اسرار سے آگاہ کیا اور تجھے خطاؤں سے محفظ رکھا تاکہ تو اختتامِ جہان تک لوگوں کے اسوہ نمونہ بن جائے ۔
ضمناً اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مندرجہ بالا جملہ استثنائیہ قبل کی آیت سے مربوط ہے اور مستثنیٰ ومستثنیٰ منہ کا مفہوم اس طرح ہے:
اگر ہم چاہیں تو تجھ پر بھیجی ہوئی وحی واپس لے لیں لیکن ہم ایسا نہیں کریںگے کیونکہ رحمتِ الٰہی تیرے اور لوگوں کے شامل ِ حال ہے ۔(۱)
واضح ہے کہ ایسا استثنا اس امر کی دلیل نہیں کہ ہوسکتا ہے خدا عملی طور پر کسی دن یہ رحمت اپنے پیغمبر سے واپس لے لے بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر کے پاس بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں ہے اس کا علم اور آسمانی وحی سب خدا کی طرف سے ہیں اور اس کی مشیت سے وابستہ ہیں ۔

 


۱۔ درحقیقت جملے کا مفہوم اس طرح ہے:
ولاکن لا نشاء ان نذھب بالذی اوحینا الیک رحمة من ربک۔
لیکن ہم نہیں چاہتے کہ تیرے طرف جو وحی کیا گیا ہے اسے واپس لے لیں کیونکہ یہ تیرے رب کی رحمت ہے ۔