4۔ ”اذاً لا تخذوک خلیلا“ کی تفسیر
وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا ۷۳وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ۷۴إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ۷۵
اور یہ ظالم اس بات کے کوشاں تھے کہ آپ کو ہماری وحی سے ہٹا کر دوسری باتوں کے افترا پر آمادہ کردیں اور اس طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنالیتے. اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے. اور پھر ہم زندگانی دنیا اور موت دونوں مرحلوں پر رَہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مددگار اور کمک کرنے والا بھی نہ پاتے.
4۔ ”اذاً لا تخذوک خلیلا“ کی تفسیر
مفسرین میں اس کا یہ معنی مشہور ہے: ”اگر تُو مشرکین کی خواہشات کی طرف مائل ہوتا تو تجھے اپنا دوست قرار دیتے“۔
لیکن بعض نے یہ احتمال ظاہر کیاہے کہ اس جملے کے معنی یہ ہے:”اگر تُو مشرکین کی خواہشات کی طرف مائل ہوتا تو وہ تجھے فقیر اور اپنا نیازمند قرار دیتے “۔
پہلی صورت میں ”خلیل“ ”خلہ“ (بروزن ”قلہ“)سے دوست کے معنی میںہے ۔
دوسری صورت میں خلیل“ ”خلہ“ (بروزن ”غَلہ“)نیاز مند وفقیر کے معنی میںہے ۔
لیکن واضح ہے کہ صحیح وہی پہلی تفسیر ہے ۔