۳۔”ضعف“ کا مفہوم
وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا ۷۳وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ۷۴إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ۷۵
اور یہ ظالم اس بات کے کوشاں تھے کہ آپ کو ہماری وحی سے ہٹا کر دوسری باتوں کے افترا پر آمادہ کردیں اور اس طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنالیتے. اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے. اور پھر ہم زندگانی دنیا اور موت دونوں مرحلوں پر رَہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مددگار اور کمک کرنے والا بھی نہ پاتے.
۳۔”ضعف“ کا مفہوم
اس نکتے کی طرف بھی پوری توجہ ضروری ہے کہ عربی زبان میں ”ضعف“ صرف دوگنا کے معنی میں نہیں ہے بلکہ دوگنا اور کئی گنا کے معنی میں ہے ۔
آٹھویں صدی کا مشہور لغت شناس فیروزہ آبادی کتاب”قاموس“ میں کہتا ہے:
کبھی”ضعف فلان شی“ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب دوگنا یا تین گنا ہوتا ہے کیونکہ یہ لفظ لامحدود اضافے کے معنی میں آتا ہے ۔
اس بات کا شاہدیہ ہے کہ آیات قرآن میں ”حسنات“ کے بارے میں ہے:
اِنْ تَکُ حَسَنَةً یُضَاعِفْھَا
اگر عملِ حسنہ ہوتو خدا اسے کئی گنا کردیتا ہے ۔(نساء: ۴۰)
اور کبھی قرآن کہتا ہے:
<مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ اَمْثَالِھَا
جو کوئی ایک نیکی انجام دے گا اسے اس کے دس گنا جزا ملے گی۔(انعام:۱۶۰)
روایات اسلامی میں امام صادق علیہ السلام سے سورہ بقرہ کی آیہ ۱۶۱کی تفسیر میں مروی ہے:
اذا احسن المومن عملہ ضاعف اللّٰہ عملہ بکل حسنة سبع ماٴة ضعف، وذالک قول اللّٰہ واللّٰہ یضاعف لمن یشائ
جس وقت کوئی صاحب ِ ایمان کوئی نیک عمل انجام دیتا ہے تو اللہ ہر ایک عمل کے بدلے سات سو کا اضافہ کردیتا ہے اور خدا کے اس قول کا یہی مطلب ہے جس میں وہ فرماتا ہے :
واللّٰہ یضاعف لمن یشائ
خدا جس کے عمل کو چاہتا ہے کئی گنا کردیتا ہے ۔(3)
لیکن یہ بات اس سے مانع نہیں کہ اس لفظ کے تثنیہ یعنی”ضاعفان“ یا ”ضاعفین“ کا معنی دوگناہ ہوتا ہے یا جس وقت اضافت کے ساتھ ہوتو تین گنا کا معنی ہوتا ہے مثلاً ہم کہیں”ضعف الواحد “(غور کیجئے گا)
3۔ تفسیر المیزان،ج۲ص ۴۲۴،بحوالہ تفسیر عیاشی