۱۔ کیا یہ کشادہ دِلی تھی؟
وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا ۷۳وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ۷۴إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ۷۵
اور یہ ظالم اس بات کے کوشاں تھے کہ آپ کو ہماری وحی سے ہٹا کر دوسری باتوں کے افترا پر آمادہ کردیں اور اس طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنالیتے. اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے. اور پھر ہم زندگانی دنیا اور موت دونوں مرحلوں پر رَہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مددگار اور کمک کرنے والا بھی نہ پاتے.
۱۔ کیا یہ کشادہ دِلی تھی؟
بعض بہانہ سازوں میں انبیاء کے غیر معصوم ہونے کے بارے میں اپنے عقیدے کے لئے مندرجہ بالا آیات کو دستاویز بنانا چاہا ہے، وہ کہتے ہیںکہ ان آیات اور ان کے بارے میں منقول شانہائے نزول سے ظاہر ہوتا ہے کہ بُت پرستوں کے وسوسوں کے سامنے رسول الله نے کچھ میلان ظاہر کیا اور فوراً الله نے ان سے موٴاخذہ کیا ۔
لیکن زیرِ بحث آیات خود اس قدر واضح اور منھ بولتا ثبوت ہیں کہ اس طرز کے بطلان کے لئے ہمیں دیگر شواہد پیش کرنے سے بے نیاز کردیتی ہیں، زیرِ بحث دوسری آیت صراحت سے کہتی ہے: ”اگر ہم نے تجھے ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ تُو اُن کی طرف مائل ہوجاتا“۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ ”تثبیتِ الٰہی“ یعنی اللہ کی طرف سے ثباتِ قدم جسے ہم ”مقامِ عصمت“ سے تعبیر کرتے ہیں اس میلان میں رکاوٹ بن گیا نہ یہ کہ رسول اللہ مائل ہوچکے تھے اور خدا نے انہیں منع کیا اور ان کا مواخذہ کیا ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلی اور دوسری آیت میں در حقیقت رسول الله کی دو مختلف حالتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، پہلی حالت کہ جو بشری اور ایک عم انسان کی حالت ہے، اس کی طرف پہلی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور یہ حالت ہے دشمنوں کے وسوں کی اثر اندازی خصوصاً جبکہ اس میلان میں ظاہراً مصلحتیں بھی دکھائی دیں، مثلاً اس میلان کے بغیر سردارانِ قریش کے اسلام لانے کی امید یا خونریزی اور زیادہ مشکلات سے بچت، ہر عام آدمی چاہے وہ جتنا بھی قوی ہو ایسے وسوسوں کی اثر خیزی کا احتمال ہوتا ہے ۔
لیکن دوسری آیت روحانی پہلو، عصمت ِ الٰہی اور پروردگارکا لطفِ خاص بیان کرتی ہے وہ لطفِ خاص کہ جو انبیاء اور خصوصاً پیغمبر اسلام کے بحرانی حالات کے شاملِ حال تھا ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ طبیعتِ بشری کی وجہ سے رسول ا للہ ﷺ ، ان وسوسوں کو قبول کرنے کے قریب تو ہوئے لیکن تائیدِ الٰہی نے انہیں بچا لیا اور ان کی حفاظت کی ۔
یہ بعینہ وہی تعبیر ہے جو سورہ یوسف میں ہے کہ انتہائی بحرانی لمحات میں برہان الٰہی نے ان کا رخ کیا اور اگر اس برھان کا مشاہدہ نہ ہوتا تو عزیزِ مصر کی بیوی کے انتہائی قوی وسوسوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے،قرآنی الفاظ میں ہے:
<وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہِ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَااٴَنْ رَاٴَی بُرْھَانَ رَبِّہِ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ(یوسف:۲۴)
ہمارے نظرےے کے مطابق زیرِ بحث آیات نہ صرف یہ کہ نفی ِ عصمت کے لئے دلیل نہیں ہے بلکہ عصمت پر دلالت کرنے والی آیات میں سے ہیں کیونکہ مسلماً تثبیتِ الٰہی (افکار ومیلانات اور عملی اقدامات کے لحاظ سے خدا کی طرف سے ثباتِ قدم) صرف اسی موقع پر نہ تھا کیونکہ اس سے مشابہ مواقع پر بھی اس کی دلیل موجود ہے، لہٰذا یہ انبیاء اور ہادیانِ الٰہی کے معصوم ہونے پرایک شاہدِ زندہ ہے ۔
رہی تیسری آیت کہ جو یہ کہتی ہے :اگر تیرا میلان ان کی طرف ہوجا تا تو تجھے شدید عذاب ہوتا ۔ تو یہ اسی چیز کی دلیل ہے کہ عصمتِ انبیاء سے مربوط مباحث میں آئی ہے کہ ان کا معصوم ہونا اضطراری پہلو نہیں رکھتا بلکہ ایک قسم کی خود آگہی کے ساتھ ہے کہ جو اختیار اور ارادے کی آزادی کے ساتھ انجام پاتی ہے لہٰذا ایسی حالت میں ارتکابِ گناہ عقلاً محال نہیں ہے بلکہ آگہی وایمان کے اعلیٰ درجے کی وجہ سے عملاً یہ حضرات ہرگز گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے ، فرض کریں اگر وہ گناہ کرتے تو ان پر بھی کدائی عذاب ہوتا(غور کیجئے گا)۔(۱)
۱۔اس بات کی مزید تفصیل کتاب ”رہبران بزرگ“ میں پڑھیں ۔