Tafseer e Namoona

Topic

											

									  شان نزول

										
																									
								

Ayat No : 73-75

: الاسراء

وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا ۷۳وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ۷۴إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ۷۵

Translation

اور یہ ظالم اس بات کے کوشاں تھے کہ آپ کو ہماری وحی سے ہٹا کر دوسری باتوں کے افترا پر آمادہ کردیں اور اس طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنالیتے. اور اگر ہماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہوجاتے. اور پھر ہم زندگانی دنیا اور موت دونوں مرحلوں پر رَہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مددگار اور کمک کرنے والا بھی نہ پاتے.

Tafseer

									ان بحث انگیز آیات کے بارے میں مفسرین نے مختلف شان نزول نقل کی ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو ایسی ہیں جو ان آیات کی تاریخ نزول سے مطابقت نہیں رکھتیں لیکن چونکہ بعض منحرف لوگوں نے انہیں دستاویز بنالیا ہے لہٰذا ہم ان سب کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں پانچ مختلف اقوال نقل کیے ہیں:


 

۱۔ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہا:
 
 

ہم تجھے اس وقت تک حجرِ اسود کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے جب تک کم از کم تو ہمارے خداؤں کو احترام کی نظر سے نہ دیکھے ۔
رسول اللہ نے دل میں خیال کیا کہ خدا تو جانتا ہے کہ میں ان بتوں سے متنفر ہوں لہٰذا اس میں کیا حرج ہے کہ میں ان کی طرف دیکھ لوں تاکہ یہ لوگ مجھے حجر اسود کو ہاتھ لگانے دیں ۔
اس مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کام سے منع کیا گیا ۔


۲۔ قریش نے تجویز کیا :

ہمارے خداؤں کو برا کہنا چھوڑدے ۔ ہمیں کم عق کہنے سے باز آجا اور ان حقیر غلاموں کو اپنے سے دور کردے کہ جن سے ہمیں بدبو آتی ہے تاکہ ہم تیری مجلس میں حاضر ہوں اور تیری باتیں سنیں ۔
اس امید پر کہ شاید یہ لوگ مسلمان ہوجائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے سوچا کہ (چاہے وقتی طور پر ہی سہی)ان کی بات مان لی جائے ۔
اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور آپ کو اس کام سے روکا گیا ۔
۳۔ رسول اللہ نے بتوں کو مسجد حرام سے نکال باہر پھینکا تو قریش نے تقاضا کیا کہ آپ اجازت دیں کہ جو بت خانہ کعبہ کے نزدیک کوہ مروہ پر تھا اسے وہیں رہنے دیا جائے ۔
پہلے تو پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ وآلہ وسلّمنے سیاسی مقاصد کے پیش نظر ارادہ کیا کہ ان کی بات مان لی جائے لیکن بعد ازاں اس ارادے کو ترک کریا اور حکم دیا کہ یہ بت بھی توڑدیا جائے ۔
اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔
۴۔ ثقیف قبیلے کے کچھ نمائندے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انہوں نے عرض کیا:
ہم آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں لیکن ہماری تین شرطیں ہیں ۔ پہلی یہ کہ ہم نماز میں رکوع و سجود کے لیے نہیں جکھیں گے ۔دوسری یہ کہ ہم اپنے بتوں کو اپنے ہاتھ سے نہیں توڑیں گے بلکہ آپ خود توڑدیں ۔ تیسری یہ کہ آپ اجازت دیں کہ ”لات“ کو ایک سال تک باقی رہنے دیا جائے ۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا :
وہ دین جس میں رکوع و سجود نہ ہو وہ کسی کام کا نہیں ۔رہا تمہارے بتوں کو تمہارے اپنے ہاتھ سے توڑنا تو اگر چاہوں تو اپنے ہاتھ سے توڑ دو اگر تمہارا دل یہ نہیں چاہتا تو ہم خود توڑ دیں گے ۔ رہی ”لات “کے بارے میں تمھاری بات تو مَیں تمھیں اس قسم کی اجازت نہیں دیتا ۔
اس موقع پر رسول الله کھڑے ہوگئے اور وضو کیا تو حضرت عمر نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور کہا: رسول کو کیوں اذیت دیتے ہو وہ ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ سر زمینِ عرب میں بُت باقی رہیں ۔
لیکن وہ لوگ یہی تقاضا کرتے رہے یہاں تک کہ مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں ۔
۵۔ قبیلہٴ ”ثقیف“ کے چند نمائندے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ وہ کہنے لگے: ہمیں ایک سال کے لئے اجازت دیجئے کہ لوگ بتوں کے لئے جو ہدیے اور تحفے لاتے ہیں وہ ہم لے لیں، اس کے بعد ہم خود بتوں کو توڑ دیں گے اور اسلام لے آئیں گے ۔
رسول الله اس سوچ میں تھے کہ بعض پہلووٴں کے پیش نظر انھیں یہ مہلت دے دیں کہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئیں اور اس امر سے شدّت کے ساتھ منع کیا گیا ۔
اِن کے علاوہ بھی اِن سے ملتی جلتی کچھ شانِ نزول نقل ہوئی ہیں لیکن شاید وضاحت کی ضرورت نہ ہو کہ ان میں سے اکثر کا غلط ہونا خود انھیں میں سے پوشیدہ ہے کیونکہ رسول الله کی خدمت میں قبائل کے نمائندوں کا آنا جانا اور آپ سے تقاضا کرنا یا بتوں کو مسجد الحرام سے باہر پھینکنا اور انھیں توڑنا یہ سب فتح مکہ کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال کے واقعات ہیں جبکہ یہ سورت بنیادی طور پر ہجرت سے پہلے نازل ہوئی اور اس زمانے میں ظاہری طور پر پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ایسا اقتدار حاصل نہ تھا کہ مشرکین آپ کے سامنے ایسی انکساری کرتے ۔
اس سے قطع نظر بعض دیگر شانِ نزول کا بے بنیاد ہونا تفسیر کے ضمن میں پیش کی جانے والی توضیحات سے واضح ہوجائے گا ۔


تفسیر


شرک کے لئے تھوڑے سے جھکاوٴ کی سزا
 


گزشتہ آیات میں شرک اور مشرکین کے بارے میں بحث تھی، زیر نظر آیات میںم پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے وسوسوں سے بچیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ شرک وبت پرستی کے خلاف معرکے میں تھوڑی سی کمزوری پیدا ہوجائے لہٰذا ضروری ہے کہ مکمل قاطعیت کے ساتھ یہ معرکہ جاری ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: قریب تھا کہ وسوسے تیرے دل پر اثر انداز ہوتے اور ہم نے جو تجھے وحی کی ہے اس کے بارے میں تجھے فریب دیتے تاکہ تُو اس کی بجائے کسی اور کی ہماری طرف نسبت ے اور پھر وہ تجھے اپنا دوست مان لیتے (وَإِنْ کَادُوا لَیَفْتِنُونَکَ عَنْ الَّذِی اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ لِتَفْتَرِی عَلَیْنَا غَیْرَہُ وَإِذًا لَاتَّخَذُوکَ خَلِیلًا )۔
اور اگر ہم تیرے دل کو حق وحقیقت پر ثابت قدم نہ رکھے ہوتے (اور نورِ عصمت کے باعث تُو ثابت قدم نہ ہوتا) تو قریب تھا کہ تُو تھوڑا سا ان پر اعتماد کرتا اور ان کی طرف مائل ہوجاتا (وَلَوْلَااٴَنْ ثَبَّتْنَاکََ لَقَدْ کِدْتَ تَرْکَنُ إِلَیْھِمْ شَیْئًا قَلِیلًا)۔
اور اگر تو ایسا کرلیتا تو ہم تجھے مشرکین کی دنیاوی اور اُخروی سزا سے دوگنی سزا چکھاتے اور پھر ہمارے مقابلے میں تیرا کوئی مددگار نہ ہوتا (إِذًا لَاٴَذَقْنَاکَ ضِعْفَ الْحَیَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَاتَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیرًا)۔