Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ انسان زندگی پر رہبری کا اثر

										
																									
								

Ayat No : 70-72

: الاسراء

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۷۰يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا ۷۱وَمَنْ كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا ۷۲

Translation

اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے. قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامئہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں ہوگا. اور جو اسی دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا.

Tafseer

									۱۔ انسان زندگی پر رہبری کا اثر:
انسان کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کو رہبری کے مسئلے سے جدا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کسی بھی گروہ کے حقیقی راستے کو واضح کرنے کے لیے ہمیشہ رہبر اور پیشوا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اصولی طور پر کمال و ارتقاء وجود رہبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ انبیاء اور اوصیاء کے بھیجے جانے اور انتخاب کا یہی راز ہے ۔
علم عقائد و کلام میں بھی قاعدہ لطف سے استفادہ کرتے ہوئے اور معاشرے کے نظم و نسق کے حصول اور انحراف سے بچانے میں رہبر کی ضرورت کے حوالے سے بعثت انبیاء اور ہر زمانے میں موجود امام کا ضروری ہونا ثابت کیا گیا ہے لیکن ایک خدائی رہبر اور عالم و صالح انسان کی رہبری انسان کے لیے اصلی ہدف تک رسائی کو جیسے آسان اور تیز تر کردیتی ہے ایسے ہی آئمہ کفر و ضلال کی رہبری کو قبول کرنے سے انسان بد بختی اور بد انجام کے گڑ ھے میں جاگر تاہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں معتدد احادیثِ اسلامی مصادر میں موجود ہیں ۔ ان کے مطالعے سے مفہوم آیت اور ہدف امامت واضح ہوجاتا ہے ۔
ایک حدیث شیعہ اور سنی حضرات نے امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے ۔اس میں ہے کہ امام نے اپنے آباؤ اجداد کے واسطے سے رسولِ اکرم سے اس آیت کی تفسیر میں نقل فرمایا:
”یدعی کل اناس بامام زمانہم و کتاب ربہم وسنة نبیہم“
اس روز ہر قوم کو اس کے زمانے کے امام، اس کی کتاب الٰہی اور اس کے پیغمبر کی سنت کے ساتھ پکارا جائے گا ۔ (1)

نیز امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
الا تحمدون الله اذا کان یوم القیامة فدعا کل قوم الیٰ من یتولونہ و دعانا الیٰ رسول الله و فزعتم الینا فالی این ترون یذھب بکم الی الجنہ و رب الکعبة قالھا ثلالاً
کیا تم الله کی حمد و ثنا بجا نہیں لاتے کہ جب قیامت کا دن ہوگا، خدا ہر گروہ کو اس شخص کے ساتھ پکارے گا جس کی اس نے ولایت قبول کی ہوگی، ہمیں رسول الله کے ساتھ پکارے گا اور تمہیں ہمارے ساتھ۔ تم سوچتے ہوکہ ایسے میں تمہیں کدھر لے جائیں گے ۔ ربِّ کعبہ کی قسم! بہشت کی طرف۔ پھر امام (علیه السلام)نے اس حملے کو تین مرتبہ دہرایا ۔(2)
 

۱۔  مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں-
۲۔ حدیث کی عبارت یوں ہے:
قال الباقر (ع): بنی الاسلام علیٰ خمس علی الصلوٰة والزکوٰة والصوم والحج والولایة ولم یناد بشیءٍ کما نودی بالولایة (اصول کافی ج۲ ص ۱۵)