انسان گلشن حیات کا بہترین پھول
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۷۰يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا ۷۱وَمَنْ كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا ۷۲
اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے. قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامئہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں ہوگا. اور جو اسی دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا.
تربیت و ہدایت کا ایک طریقہ یہ ہے لوگوں کو ان کی عظمت اور مقام یاد دلایا جائے ۔ قرآن مجید بھی یہ طریقہ اختیار کرتا ہے ۔ گزشتہ آیات میں مشرکین اور منحرف افراد کے بارے میں گفتگو تھی۔ اب زیر نظر آیات میں نوعِ انسانی کے بلند مقام کا تذکرہ ہے نیز اس عطا ہونے والی نعمات الٰہی کا بیان ہے تا کہ وہ اپنے اس انتہائی اعلیٰ مقام کی طرف توجہ کرے اور اپنے مقامِ گراں بہا کو ضائع نہ کردے اور اپنے تئیں کسی حقیر سی قیمت پر نہ بیچ ڈالے ۔
ارشاد ہو تا ہے :ہم نے اولاد ِآدم کو عزت و تکریم بخشی اور گرامی قدر بنایا (وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ) ۔
اس کے بعد انسان کو عطا ہو نے والی تین طرح کی نعمات الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔
پہلی نعمت :
”ہم نے انہیں خشکی ودریا میں سواریاں عطا ہیں“ ( وَحَمَلْنَاھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْر) ۔
دوسری نعمت:
”پاکیزہ رزق میں سے ہم نے انہیں روزی دی ہے “(وَرَزَقْنَاھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ )
لفظ ”طیب“کے مفہوم میں ہر پاکیزہ موجود شامل ہے ۔اس مفہوم پر توجہ کی جائے تو اس عظیم خدائی نعمت کی وسعت واضح ہو جاتی ہے ۔
تیسری نعمت :
”ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے “( وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلیٰ کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا) ۔