۲۔ بنی آدم کا شرف
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۷۰يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا ۷۱وَمَنْ كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا ۷۲
اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے. قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامئہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں ہوگا. اور جو اسی دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہے گا.
”بنی آدم“ عموماً قرآن میں انسان کے لئے ایک ایسا عنوان ہے جس میں مدح وستائش اور احترام شامل ہے جبکہ لفظ انسان کی توصیف”ظلوم“،”جہول“،”ہلوع“( کم ظرف)،”ضعیف“ نافرمان اور ناسپاسی کے الفاظ سے کی گئی ہے ۔ یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ لفظ”بنی آدم“تربیت یافتہ انسانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یاکم از کم یہ انسان کی مثبت صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔(حضرت آدم(علیه السلام) کا افتخار و اعزاز اور فرشتوں پر ان کی فضیلت کہ جو اس لفظ ”بنی آدم“میں پنہان ہے یہ بھی اس معنی کی ایک موئد ہے)۔جبکہ لفظ”انسان“اس کے مطلق معنی کے لحاظ سے ہے اور کبھی کبھی انسان کے منفی پہلووٴں کی طرف ذکر ہے یہاں لفظ”بنی آدم“ استعمال ہوا ہے ۔
قرآن مجید میں انسانوں کے معنی کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۸صفحہ۱۹۴ پر ہم نے تفصیلی بحث کی ہے ۔