جنھوں نے کفرانِ نعمت کیا اور گرفتارِ عذاب ہوئے
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ۱۱۲وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ۱۱۳فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ۱۱۴
اور اللہ نے اس قریہ کی بھی مثال بیان کی ہے جو محفوظ اور مطمئن تھی اور اس کا رزق ہر طرف سے باقاعدہ آرہا تھا لیکن اس قریہ کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو خدا نے انہیں بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھادیا صرف ان کے ان اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رہے تھے. اور یقینا ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کردی تو پھر ان تک عذاب آپہنچا کہ یہ سب ظلم کرنے والے تھے. لہذا اب تم اللہ کے دئے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اس کی عبادت کرنے والے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو.
تفسیر:
جنھوں نے کفرانِ نعمت کیا اور گرفتارِ عذاب ہوئے:
ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ یہ سورت نعتموں کے ذکر سے معمور ہے اس میں مختلف قسم کی روحانی اور مادی نعمتوں کا تذکرہ ہے اس کی مناسبت سے بعض دیگر مباحث بھی آگئے ہیں۔ زیر نظر آیات میں نعماتِ الٰہی کے کفران کا نتیجہ ایک عینی مثال کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے: جو لوگ نعماتِ الٰہی کی ناشکری کرتے ہیں اللہ نے ان کے لیے ایک آبادی کی مثال بیان کی ہے کہ جو بڑے امن و سکون میں تھی (وَضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً)۔
یہاں ایسا امن و امان تھا کہ سب باسی اطمینان سے رہتے سہتے تھے۔ انھیں یہاں سے چلے جانے کی کوئی مجبوری نہ تھی (ُّطْمَئِنَّـةً)۔
امن و امان اور سکون و اطمینان کی نعمت کے علاوہ مختلف قسم کے جس رزق کی انھیں ضرورت تھی وہ وافر مقدار میں ہر جگہ سے پہنچ جاتا تھا (يَّاْتِيْـهَا رِزْقُـهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ)۔
لیکن آخر کار اس آبادی کے باسیوں نے نعماتِ الٰہی کا کفران کیا اور اللہ نے ان کے اعمال کی وجہ سے انھیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا (فَكَـفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّـٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّـٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُـوْا يَصْنَعُوْنَ)
--------------------
وہ نہ صرف مادی نعمتوں سے مالا مال تھے بلکہ انھیں روحانی نعمتیں بھی میسر تھیں ایک فستادہٓ الٰہی ان میں موجود تھا اور انھیں آسمانی تعلیمات میسر تھیں۔ انھیں میں سے ایک رسول ان کی طرف آیا، ان نے انھیں دینِ حق کی دعوت دی، اور اتمامِ حجت کیا لیکن انھوں نے اس کی تکذیب شروع کردی (وَلَقَدْ جَآءَهُـمْ رَسُوْلٌ مِّنْـهُـمْ فَكَذَّبُوْهُ)
اس موقع پر عذابِ الٰہی نے انھیں گھیر لیا کہ وہ ظالم و ستمگر تھے (فَاَخَذَهُـمُ الْعَذَابُ وَهُـمْ ظَالِمُوْنَ)
جب تم نے ایسے زندہ اور واضح نمونے دیکھ لیے ہیں تو پھر ان غافلوں، ظالموں اور کفرانِ نعمت کرنے والوں کی راہ اختیار نہ کرنا۔ ’’اللہ نے تمھیں جو رزق دیا ہے اس میں سے حلال اور پاکیزہ کھاؤ اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو، اگر تم اس کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبادت کرتے ہو (فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّـٰهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَّاشْكُـرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ اِنْ كُنْتُـمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ)۔