Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند اہم نکات

										
																									
								

Ayat No : 112-114

: النحل

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ۱۱۲وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ ۱۱۳فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ۱۱۴

Translation

اور اللہ نے اس قریہ کی بھی مثال بیان کی ہے جو محفوظ اور مطمئن تھی اور اس کا رزق ہر طرف سے باقاعدہ آرہا تھا لیکن اس قریہ کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو خدا نے انہیں بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھادیا صرف ان کے ان اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رہے تھے. اور یقینا ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کردی تو پھر ان تک عذاب آپہنچا کہ یہ سب ظلم کرنے والے تھے. لہذا اب تم اللہ کے دئے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اس کی عبادت کرنے والے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو.

Tafseer

									چند اہم نکات:
 ۱۔ یہ مثال ہے یا تاریخی واقعہ؟ زیر بحث آیات میں ایک آباد اور پُر نعمت جگہ کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس آبادی کے لوگ کفرانِ نعمت کی وجہ سے خوف، بھوک اور بُرے انجام کا شکار ہوئے اس لیے لفظ ’’مثلاً‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز اس میں جو فعل ذکر کیے گئے ہیں وہ فعلِ ماضی کی صورت میں ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا واقعہ عملاً رونما ہوا ہے۔
 اس سلسلے میں مفسرین نے بحث کی ہے کہ کیا یہاں ایک عمومی مثال بیان کرنا مقصود ہے یا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جو عملاً خارجی حیثیت رکھتا ہے جو لوگ دوسرے احتمال کے حامی ہیں انھوں نے پھر اس مسئلے پر بھی گفتگو کی ہے کہ یہ علاقہ کہاں تھا؟
 بعض کا خیال ہے کہ یہ سر زمینِ مکہ کی طرف اشارہ ہے اور شاید یہ کہنا کہ ’’يَّاْتِيْـهَا رِزْقُـهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ‘‘ (اس آبادی کے لیے روزی فراوانی کے ساتھ ہر جگہ سے آتی ہے) اس احتمال کی تقویت کا باعث بنا ہے کیونکہ یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس علاقے میں ضرورت کی چیزیں پیدا نہیں ہوتی تھیں باہر سے اس کی طرف لائی جاتی تھیں اس سے قطع نظر سورہٓ قصص کی آیہ ۵۷ میں ہے:-
 یجیی الیہ ثمرات کل شئی
 ہر طرح کے پھل اس کی طرف لائے جاتے تھے۔
 یقیناًیہ جملہ اس علاقہ سے مراد سر زمین مکہ ہونے سے بہت مناسبت رکھتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے واضح طور پر اس قسم کا کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ جو مکہ میں رونما ہوا ہو کہ ایک دن وہاں بہت امن و سکون ہو اور دوسرے دن قحط و بد امنی نے اسے سختی سے گھیر لیا ہو۔
 بعض دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ داستان بنی اسرائیل کے ایک گروہ سے مربوط ہے یہ لوگ ایک آباد علاقے میں زندگی بسر کرتے تھے اور کفرانِ نعمت کی وجہ سے قحط و بد امنی میں گرفتار ہوگئے تھے۔ اس بات کی شاید وہ حدیث ہے جو امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
 ’’بنی اسرائیل کا ایک گروہ بہت خوشحال زندگی گزار رہا تھا یہاں تک کہ وہ لوگ غذا سے چھوٹے چھوٹے مجسمے بناتے تھے اور بعض اوقات اپنے بدن (کی نجاست) کو بھی ان سے صاف کر لیتے تھے لیکن انجام کار ان کا معاملہ یہاں تک پہنچا کہ وہ مجبور ہوگئے کہ غلاظت سے آلودہ اسی غذا کو کھائیں اور یہی وہ چیز ہے کہ جس کے بارے میں اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
 يَّاْتِيْـهَا رِزْقُـهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱؎
 اس جیسے مضمون کی اور روایات بھی امام صادق علیہ السلام اور تفسیر علی بن ابراہیم سے نقل ہوئی ہیں کہ جن کے اسناد پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ورنہ مسئلہ واضح تھا۔ ۲؎
 یہ احتمال بھی ہے کہ مذکورہ آیت قومِ سبا کے واقعے کی طرف اشارہ ہو کہ جو یمن کی آباد سرزمین میں زندگی بسر کرتی تھی۔
 قرآن نے سورہٓ سبا کی آیت 15 تا 19 میں ان کی زندگی کی داستان بیان کی ہے کہ وہ لوگ بہت سرسبز علاقے میں رہتے تھے وہاں پھلوں سے لدے ہوئے باغات تھے ہر طرف امن و امان تھا۔ پاک و پاکیزہ زندگی تھی وہ غرور سر کشی اور کفرانِ نعمت کا شکار ہوئے جس کے باعث ان کا علاقہ ویران ہوگیا۔ اور وہ لوگ ادھر ادھر منتشر ہو کر ساری دنیا کے لیے سامانِ عبرت
---------------------------------------------------
۱؎ تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ص ۹۱ (توجہ رہے کہ مندرجہ بالا حدیث عیاشی سے لی گئی ہے اور اس کی احادیث مرسل ہیں)۔
۲؎ ایضاً۔
---------------------------------------------------

بن گئے
۔
 ’’يَّاْتِيْـهَا رِزْقُـهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ‘‘ لازمی طور پر اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ علاقہ خود سر سبز و شاداب نہیں تھا ہو سکتا ہے ’’کل مکان‘‘ سے مراد اسی علاقے اور شہر کے اطراف ہوں اور ہم جانتے ہیں کہ ایک وسیع علاقے کی پیداوار شہر یا مرکزی بستی کی طرف منتقل ہوتی ہے۔
 اس نکتے کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ کوئی مانع نہیں کہ زیر بحث آیت ان سب کی طرف اشارہ ہو بہر حال تاریخ میں ایسے بہت سے علاقوں کا ذکر ہے کہ جو اس انجام سے دوچار ہوئے لہذا آیت کی تفسیر کے بارے میں کوئی اہم مشکل باقی نہیں رہتی اگرچہ کسی ایک علاقے کے تعین کے بارے میں عدم اطمینان کے باعث بعض مفسرین نے اسے ایک عمومی مثال قرار دیا ہے۔ لیکن زیر نظر آیات کا ظاہری مفہوم اس تفسیر سے مناسبت نہیں رکھتا بلکہ اس کی سب تعبیرات ایک حقیقی واقعے پر دلالت کرتی ہیں۔
 ۲۔ امن اور رزقِ فراواں: زیر نظر آیات میں اس آباد اور پر برکت علاقے کی تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی خصوصیت امن و امان ہے۔ اس کے بعد اطمینان ِ حیات کا ذکر ہے اور تیسری خصوصیت یہ ہے کہ فراواں رزق اس کی طرف آتا ہے یہ تینوں خصوصیات آیت میں موجود ترتیب کے لحاظ سے طبیعی ترتیب اور علت و معلول کے سلسلے کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ جب تک امن و امان نہ ہو کوئی شخص کسی جگہ اطمینان سے زندگی نہیں گزار سکتا اور جب تک یہ دونوں نہ ہوں کوئی شخص پیداوار کے حصول اور اقتصادی امور میں لگاؤ سے کام نہیں کر سکتا۔ یہ بات ہم سب کے لیے اور ان لوگوں کے لیے ایک درس ہے جو چاہتے ہیں کہ ان کی سرزمین آباد اور ہر لحاظ سے آزاد ہو۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے امن و امان کی ضرورت ہے اس کے بعد علاقے کے لوگوں کو اپنے مستقبل کے لیے پُر امید ہونا چاہیے اور اس کے بعد اقتصادی فعالیت کی باری آتی ہے۔ 
 لیکن یہ تینوں مادی نعمتیں اس وقت کمال کو پہنچتی ہیں جب ایمان و توحید جیسی نعمتوں سے ہم آہنگ ہوں اسی لیے مندرجہ بالا آیات میں ان تینوں نعمتوں کے ذکر کے بعد فرمایا گیا:
 ولقد جاءھم رسول منھم
 ایک رسول کہ جو انھیں کی نوع میں سے تھا اسے ان کی ہدایت کے لیے مامور کیا گیا۔۱؎
 ۳۔ بھوک اور بدامنی کا لباس: یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں کفرانِ نعمت کرنے والوں کا انجام بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
 اللہ نے انھیں بھوک اور خوف کا لباس چکھایا۔
 یعنی ایک طرف تو بھوک اور خوف کو لباس سے تشبیہ دی گئی ہے اور دوسری طرف پہنانے کی بجائے چکھانے کا
----------------------------------------------
۱؎ تفسیر المیزان جلد ۱۲ ص ۳۸۸
----------------------------------------------
ذکر ہے۔ اس تعبیر نے مفسری کو زیادہ غوروخوض پر ابھارا ہے۔
 البتہ ہو سکتا ہے بعض تشبیہات کا ہماری زبان میں معمول نہ ہو اور ہمیں ان پر تعجب ہو جبکہ یہی تعبیرات کسی دوسری زبان میں کوئی لطیف نکتہ بیان کر رہی ہوں مثلاً لباس کا چکھنا۔
 ابن راوندی کے بقول اس سے ابنِ اعرابی نے پوچھا: کیا لباس بھی چکھا جاتا ہے؟
 ابن راوندی نے کہا: فرض کیا تمھیں پیغبرِاسلام کی نبوت میں شک ہے لیکن تم اس پر شک نہیں کرسکتے کہ وہ ایک (فصیح) عرب تھے۔۱؎
 بہر حال یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ قحط اور بد امنی نے انھیں اس طرح سے گھیر رکھا تھا کہ جیسے لباس نے جسم کو گھیرا ہوتا ہے اور بدن کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے دوسری طرف یہ قحط اور خوف اس طرح سے ان پر مسلط تھا کہ گویا اسے وہ اپنی زبان سے چکھ رہے تھے یہ بات قحط کی انتہائی شدت اور بد امنی کی دلیل ہے۔
 در حقیقت جیسے ابتداء میں امن و خوشحالی نے ان کے سارے وجود کو سرشار کر رکھا تھا بعد ازاں کفرانِ نعمت کے باعث اسی طرح فقر و فاقہ اور بد امنی نے ان کے وجودِ حیات کو گھیر لیا۔
 ۴۔ نعماتِ الٰہی کا ضیاع اور کفرانِ نعمت: جیسا کہ ہم نے مذکورہ بالا روایت میں پڑھا ہے کہ خوشحالی میں یہ قوم اس طرح سے غرور غفلت میں گرفتار ہوئی کہ مفید اور محترم غذا کو اپنے بدن کی غلاظت دور کرنے کے لیے استعمال کرنے لگی اسی بنا پر اللہ تعالی نے انھیں قحط اور خوف میں مبتلا کر دیا۔
 یہ بات ان تمام افراد اور قوموں کے لیے ایک تنبیہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو نعماتِ الٰہی میں مستغرق ہیں تا کہ وہ جان لیں کہ ہر قسم کا اسراف، حدِ اعتدال سے تجاوز اور نعمتوں کا ضیاع جرم ہے ایسا جرم کہ جو بہت ہی سنگین ہے، یہ ان سب کے لیے تنبیہ ہے کہ جو ہمیشہ اپنی اضافی غذا وک کوڑا کرکٹ کی نذر کر دیتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ جو تین چار مہمانوں کے لیے ۲۰ افراد کی ضرورت کے مطابق رنگا رنگ کھانے تیار کر دیتے ہیں یہاں تک کہ اس میں سے جو کھانا بچ جاتا ہے وہ غریب بھوکے انسانوں کے بھی کام نہیں آتا۔
 یہ ان لوگوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ جو غذائی اشیاء ذخیرہ کر رکھتے ہیں تا کہ بعد میں انھیں مہنگے داموں بیچیں یہاں تک کہ وہ اشیاء خراب ہو جاتی ہیں لیکن وہ اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے کہ انھیں سستے داموں یا مفت دے دیں۔
 جی ہاں! ان سب امور پر خدا کے ہاں عذاب اور سزا ہے اور کم از کم سزا یہ ہے کہ نعمتیں سلب ہو جاتی ہیں۔
 اس مسئلے کی اہمیت اس وقت زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب ہم جان لیں کہ روئے زمین پر موجعد غذا اور اناج محدود نہیں ہے دوسرے لفظوں میں زمین کی جو پیداوار ہے اس کے مطابق ضرورت مند اور بھوکے افراد بھی موجود ہیں اور اس میں جو بھی افراط و تفریط کی جائے گی اس کا نتیجہ اس کے مطابق لوگوں کی محرومی ہوگا۔
----------------------------------------------
۱؎ تفسیر فخر الدین رازی جلد ۲۰ ص ۱۲۸۔
----------------------------------------------
یہ ہی وجہ ہے کہ اسلامی روایات میں اس مسئلے کی طرف سختی سے توجہ دلائی گئی ہے یہاں تک امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:-
 میرے والد تو لیے سے غذا آلودہ ہاتھ صاف کرنے پر ناراض ہوتے تھے وہ غٖذا آلودہ ہاتھ کو احترامِ غذا میں چاٹ لیتے تھے۔ کوئی بچہ ان کے پاس ہوتا اور کوئی چیز اس کے برتن میں باقی رہ جاتی تو اس کے برتن کو خود صاف کر لیتے یہاں تک کہ آپ خود فرماتے کہ کبھی دستر خوان سے تھوڑی سی غذا گر جاتی ہے تو میں اسے تلاش کرتا ہوں اس حد تک کہ گھر کی خادمہ ہنستی ہے (کہ مٰن غذا کے تھوڑے سے ٹکڑے کو تلاش کرتا پھرتا ہوں) آپ مزید کہتے کہ تم سے پہلے بعض قومیں ایسی تھیں کہ جنھیں اللہ نے فراواں نعمت عطا کی لیکن انھوں نے ناشکری کی، غذا کو بلاوجہ ضائع کیا تو خدا نے اپنی برکتیں ان سے واپس لے لیں اور انھیں قحط میں مبتلا کر دیا۔۱؎
  --------------------------------
  --------------------------------
  --------------------------------

--------------------------------------------------------
۱؎ تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ص ۹۱ (ہم نے حدیث کی تلخیص کر کے مفہوم بیان کیا ہے)۔
--------------------------------------------------------