حیاتِ طیبہ کی بنیاد
وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۹۵مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ۹۶مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ۹۷
اور خبردار اللہ کے عہدے کے عوض معمولی قیمت (مال دنیا) نہ لو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے بوجھتے ہو. جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے اور ہم یقینا صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کریں گے. جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب هایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے.
تفسیر:
حیاتِ طیبہ کی بنیاد
گذشتہ آیات میں پیمان شکنی اور جھوٹی قسم کی قباحت کے بارے میں گفتگو تھی۔ اس کے تسلسل میں زیر بحث پہلی آیت میں اسی مطلب کی تاکید کی گئی ہے البتہ فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیات میں پیمان شکنی اور جھوٹی قسم کا سبب دشمن کی زیادہ تعداد سے مرعوب ہونا بیان کیا گیا تھا جبکہ ہیاں بے قیمت مادی مفادات کے حصول کا مسئلہ درپیش ہے اسی لیے فرمایا گیا ہے: عہد الٰہی کا کبھی بھی کم قیمت پر سودا نہ کرو (وَلَا تَشْتَـرُوْا بِعَهْدِ اللّـٰهِ ثَمَنًا قَلِيْلًا)۔
یعنی عہد الٰہی کی جو بھی قیمت لگاؤ وہ حقیر اور ناچیز ہے ہیاں تک کہ اس کے بدلے تمھیں ساری دنیا بھی مل جائے تو ایفائے عہد الٰہی کے ایک لمحے کی بھی قیمت کے برابر نہیں ہے۔
اس کے بطور رد دلیل مزید فرمایا گیا ہے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جان لو
(اِنَّمَا عِنْدَ اللّـٰهِ هُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ)۔
اگلی آیت میں اس بہتری کی دلیل یوں بیان کی گئی ہے: جو کچھ تمھارے پاس ہے آخر کار فانی ہے اور نابود ہو جائےگا۔ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی اور جاودان ہے۔ (مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللّـٰهِ بَاقٍ)۔
مادی مفادات ظاہراً کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں پانی کے بلبلے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جبکہ اللہ کی جزا اس کی ذات کی طرح جاوداں ہے اور ان سب سے برتروبالا ہے۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: جو لوگ ہمارے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے (خصوصاً قسموں اور عہد و پیمان کے معاملے میں) صبرواستقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم انھیں ان کے بہترین عمل کی جزا دیں گے (َلَنَجْزِيَنَّ الَّـذِيْنَ صَبَـرُوٓا اَجْرَهُـمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ)۔
’’احسن‘‘ کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے تمام نیک اعمال ایک جیسے نہیں ہیں بعض اچھے ہیں اور بعض بہت اچھے ہیں لیکن اللہ ان کے سارے اعمال کو زیادہ اچھے اعمال کے حساب میں رکھے گا اور انھیں اچھے اعمال والی جزا دے گا اور یہ انتہائی عظمت کی بات ہے
اس ک مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کئی قسم کا مال و اسباب بیچنے کے لیے لاتا ہے بعض چیزیں بہت اعلیٰ ہیں کچھ اچھی ہیں اور کچھ درمیانی سہی۔ لیکن خریدار سب چیزوں کو بہت بڑھیا والی کی قیمت پر خرید لیتا ہے۔
ضمناً ’’ولنجزین الذین صبروا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نکتے کی طرف اشارے سے خالی نہیں ہے کہ راہِ اطاعت میں صبرواستقامت دکھانا، خصوصاً عہدوپیمان کا پابند ہونا، انسان کے بہترین اعمال میں سے ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:-
الصبر من ایمان کالرأس من الجسد ولا خیر
فی جسد لا رأس معہ ولا فی ایمان لا صبر معہ
صبرواستقامت ایمان کے لیے ایسے ہے جیسے بدن کے لیے سر۔ بدن میں سر کے بغیر کوئی خوبی کی بات نہیں اور وہ سرے کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح ایمان کی بھی صبر کے بغیر کوئی حیثیت نہیں۔۱؎
اس کے بعد ایک ہمہ گیر قانون کے طور پر ایمان کے ساتھ اعمالِ صالح کی انجام دہی کا نتیجہ اس جہان کے لیے اور دوسرے جہان کے لیے بیان کیا گیا ہے چاہے کوئی بھی شخص کسی حالت میں بھی ایمان کے ساتھ اعمالِ صالح بجا لائے قرآن اس ے بارے میں کہتا ہے: مرد ہو یا عورت، جو کوئی بھی حالتِ ایمان میں نیک عمل انجام دے ہم انھیں بہترین اعمال کی جزا دیں گے۔ (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّـهٝ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّـهُـمْ اَجْرَهُـمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُـوْايَعْمَلُوْنَ)۔
گویا معیار صرف ایمان اور اس کے نتیجے میں انجام دیئے جانے والے نیک اعمال ہیں اس کے علاوہ کوئی شرط نہیں۔
-------------------------------------------------
۱؎ نہج البلاغہ، کلمات قصار ص ۷۸۲
-------------------------------------------------
نہ سن وسال کا مسئلہ ہے، نہ قوم و قبیلے کا نہ جنس و صنف کا اور نہ معاشرے میں مقام و مرتبے کا وہ عمل صالح جو ایمان کی پیداوار ہو، اس جہان میں اس کا نتیجہ ’’حیاتِ طیبہ‘‘ ہے۔ یعنی اس سے ایسا معاشرہ وجود پاتا ہے جس میں آرام و سکون ہو امن و خوشحالی ہو، صلح وآشتی ہوا وہ تعاون و محبت ہو۔ ایسا معاشرہ جو انسان ساز اور اصلاحی مفاہیم کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے سے اسی بدحالی اور ایسے مصائب اور رنج و محن ختم ہو جاتے ہیں کہ جو استکبار، ظلم، طغیان، خود غرضی اور ہوس پرستی کی پیداوار ہوتے ہیں اور جن کے باعث آسمانِ حیات تیزوتار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان اور عملِ صالح کی بنیاد پر وجود میں آنے والا معاشرہ ان سب مشکلات اور قباحتوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ ایک طرف تو امن و خوشحالی کا یہ دور دورہ ہوتا ہے اور دوسری طرف خدا انھیں ’’ان کے بہترین اعمال کے مطابق جزا و ثواب دے گا۔‘‘ اور اس کی تفسیر گذشتہ آیات میں گزر چکی ہے۔