Tafseer e Namoona

Topic

											

									  چند اہم نکات

										
																									
								

Ayat No : 95-97

: النحل

وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۹۵مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ۹۶مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ۹۷

Translation

اور خبردار اللہ کے عہدے کے عوض معمولی قیمت (مال دنیا) نہ لو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے بوجھتے ہو. جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے اور ہم یقینا صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کریں گے. جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب هایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے.

Tafseer

									چند اہم نکات:

1۔ سرمایۂ جاوداں: اس مادی دنیا کے مزاج میں فنا ہونا موجود ہے۔ مضبوط ترین عمارتیں، طویل حکومتیں، نہایت قومی انسان اور ان سے بھی مضبوط ہر چیز نے آخر کار کہنہ، فرسودہ اور نابود ہونا ہے۔ بلا استثناء ہر چیز کے لیے زوال ہے لیکن ان موجودات کا رشتہ اگر کسی طرح خدا کی ذات پاک سے قائم ہو جائے اور انھیں اس کے لیے اس کی راہ پر ڈال دیا جائے تو وہ جاودانی رنگ اختیار کر لیتی ہیں کیونکہ اس کی ذاتِ پاک ابدی ہے۔ شہید حیاتِ جاوداں رکھتے ہیں۔ انبیاء، آئمہ حقیقی علماء اور مجاہدین راہِ خدا کی تاریخ جاودانی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کے رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ اسی بناء پر زیر بحث آیات ہمیں خبردار کرتی ہیں کہ آؤ اور اپنے سرمایۂ وجود کو فنا ہونے سے بچاؤ اس سرمائے کو اس بنک میں محفوظ کر لو کہ جس میں جتنا بھی زمانہ گذر جائے کسی چیز کے ضائع ہونے کا احتمال نہیں۔ اپنے وسائل اور صلاحیتیں خدا کے لیے مخلوق ِ خدا کے مفاد میں اور اس کی رضا کے حصول کے لیے استعمال میں لاؤ تاکہ وہ ’’عند اللہ‘‘ کا مصداق ہو جائیں اور ’’ماعند اللہ باق‘‘ کے تقاضے کے مطابق باقی رہیں۔
 ایک حدیث میں رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:
اذامات ابن اٰدم انقطع اھلہ الاعن ثلاث صدقۃ جاریہ علم ینتفع بہ و ولد صالح یدعولہ۔
فرزند آدم جب دنیا سے جاتا ہے تو تین چیزوں کے سوا ہر چیز سے اس کی امید کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور وہ تین چیزیں ہیں:
 ۱۔ صدقات ِ جاریہ:۔ (لوگوں کی خدمت کی غرض سے اور راہِ خدا میں انجام دیئے جانے والے کاموں کے آثار ِ خیر)
 ۲۔ وہ علم کہ جس سے لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
 ۳۔ اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔ ۱؎
سب چیزیں جو اللہ کے لیے اور اس کی راہ میں ہیں اس لیے ابدیت کا رنگ رکھتی ہیں:
 شتان مابین عملین: عمل تذھب لذتہ وتبقی تبعتہ و عمل تذھب متونتہ ویبقی اجرہ۔
بہت فرق ہے اس عمل میں جس کی لذت ختم ہو جاتی ہے اور باز پرس باقی رہتی ہے اور اس عمل میں کہ جس کی سختی ختم ہوجاتی ہے اور اس کا اجر باقی رہ جاتا ہے۔ ۲؎

2۔ مرد اور عورت کی برابری:۔ اس میں شک نہیں کہ جسمانی اور روحانی اعتبار سے مرد اور عورت میں کئی لحاظ سے فرق ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی سماجی ذمہ داریاں اور مناصب مختلف ہیں اور بقولے ع
 ہر کسے را بہر کارے ساختند
 ہر کسی کو ایک خاص کام کے لیے بنایا گیا ہے۔
ہر کسی کا اپنا الگ کام ہے لیکن ان میں سے کوئی فرق بھی ان کے مقامِ انسانیت یا بارگاہِ خداوندی میں ان کے مقام کے جدا ہونے کی دلیل نہیں ہے اور اس لحاظ سے دونوں مکمل طور پر برابر ہیں۔ اسی بناء پر جس معیار کی بناء پر ان کےمعنوی روحانی مرتبے کا تعین کیا جاتا ہے وہ ایک سے زیادہ نہیں اور وہ ہے ایمان ، عملِ صالح اور تقوٰی کہ جن میں دونوں یکساں طور پر اپنا مقام پیدا کر سکتے ہیں۔
زیر نظر آیات میں یہ حقیقت صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ عورت کے مقام و مرتبے کے بارے میں بیہودہ گو لوگ گذشتہ زمانے میں جو شک رکھتے تھے یا موجودہ زمانے میں رکھتے ہیں یا جو عورت کے لیے مرد سے کم تر انسانی مقام کے قائل تھے۔ ان آیات میں ان کا منہ بند کر دیا گیا ہے اور ضمناً اس اہم معاشرتی مسئلے کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر واضح کر دیا گیا ہے یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ کوتاہ فکر لوگوں کی سوچ کے برخلاف دینِ ِاسلام مرد کے تفوق کا دین نہیں بلکہ جس قدر اس کا تعلق مردوں سے ہے اسی قدر عورتوں سے بھی ہے۔ مرد اور عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں صنفیں اعمالِ صالح کی طرف گامزن ہوں اور ان کا قدم مثبت، تعمیری اور اصلاحی ہو اور جذبہ ایمانی سے سرشار ہو تو دونوں یکساں طور پر ’’حیاتِ طیبہ‘‘ کے حامل ہونگے اور دونوں بارگاہِ الٰہی میں مساوی اجر و ثواب سے بہرہ مند ہوںگے۔ اور ان کی اجتماعی حیثیت بھی یکساں ہوگی۔ ہاں البتہ جو ایمان اور عملِ صالح کو معیار قرار دیئے بغیر برتری کی تمنا کرے گا اس کے لیے حیاتِ طیبہ نہیں ہوگی۔

3۔ عملِ صالح کی جڑ سرچشمۂ ایمان سے سیراب ہوتی ہے: ’’عملِ صالح‘‘ کا مفہوم اس قدر و وسیع ہے کہ تمام
---------------------------------------------------
۱؎ ارشاد ویلمی۔
۲؎ نہج البلاغہ کلمات قصار صفحہ ۸۲۱۔
---------------------------------------------------

مثبت، مفید، تعمیری اور اصلاحی کام اور پروگرام اس میں شامل ہیں، چاہے وہ علمی ہوں یا ثقافتی، اقتصادی ہوں یا سیاسی اور چاہے وہ فوجی ہوں۔ ایک سائنس دان کہ جس نے انسانوں کے فائدے کے لیے، سالہا سال زحمت و مشقت جھیلی اور کوئی چیز ایجاد کی، وہ شہید کہ جس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر معرکہ حق و باطل میں شرکت کی اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک نثار کر دیا، وہ با ایمان ماں۔۔۔ جس نے بچہ جننے سے لے کر اس کی پرورش تک تکلیگ برداشت کی ہے وہ علماءِکرام جو اپنی بلند پایہ کتابیں لکھنے کے لیے زحمتیں اور مشقتیں جھیلتے ہیں سب کے کام عملِ صالح کے مفہوم میں شامل ہیں۔
عظیم ترین کارناموں مثلاً انبیاء کی رسالت اور پیامبری سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے کام مثلاً راستے سے چھوٹا سا پھتر ہٹانے تک سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔
ہیاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عملِ صالح کے ساتھ ایمان کی شرط کیوں لگائی گئی ہے جبکہ یہ ایمان کے بغیر بھی انجام پا سکتا ہے اور بہت سے مواقع پر ہم نے ایسا ہوتے بھی دیکھا ہے۔
اس سوال کے جواب میں ایک ہی نکتہ قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ اگر جذبہ ایمان نہ ہو تو عموماً عمل آلودہ ہو جاتا ہے اور ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ ایمان کے بغیر انجام پانے والا عمل آلودہ نہ ہو لیکن اگر عمل ِ صالح کی جڑیں توحید پرستی اور ایمان باللہ کے چشمے سے سیراب ہوں تو بہت کم ممکن ہے کہ اس میں تکبر، ریاکاری، خود نمائی، مکر و فریب اور احسان دھرنے کی سی آفات اور بلائیں اس پر اثر انداز ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عموماً قرآن مجید عملِ صالح اور ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کر کے بیان کرتا ہے کیونکہ ان کا رشتہ نہ ٹوٹنے والا اور ایک عینی حقیقت ہے۔
ضروری ہے کہ ایک مثال کے ذریعے ہم اس مسئلے کو اور واضح کر دیں۔
فرض کیجیے دو ۲ افراد ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی ایک ہسپتال بنا رہا ہے۔ ایک کے اند جذبہ الٰہی کار فرما ہے اور وہ خدمت خلقِ خدا کے  لیے یہ کام کر رہا ہے لیکن دوسرے کا مقصد خود نمائی ہے اور وہ اس کے ذریعے معاشرے میں بلند مقام حاصل کرنا چاہتا ہے ہو سکتا ہے ہم سطحی نظر سے دیکھیں تو سوچیں کہ آخر دونوں ہسپتال ہی بنا رہے ہیں اور لوگوں کو تو ان کے عمل کا ایک جیسا فائدہ ہوگا۔ ٹھیک ہے کہ ایک کو اللہ کی طرف سے جزا و ثواب بھی ملے گا اور دوسرے کو نہیں ملے گا لیکن ظاہراً ان کے عمل میں کوئی فرق نہیں۔
 لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ سوچ ایک سطحی مطالعے کا تنیجہ ہے۔ کچھ مزید غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ خود یہ دونوں عمل مختلف جہات سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں مثلاً پہلا شخص شہر کے ایسے محلے کو منتخب کرے گا کہ جس میں مستضعفین، غریب اور ضرورتمند لوگ زیادہ ہوں۔ بعض اوقات یہ محلہ گمنام سا ہوگا جہاں کوئی بڑی گزرگاہ نہیں پڑتی، اور وہ آمدورفت کا راستہ نہیں ہے لیکن دوسرا شخص ایسا علاقہ تلاش کرےگا جو زیادہ لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہے چاہے وہاں ضرورت بہت ہی کم کیوں نہ ہو۔ پہلا شخص عمارت کی ساخت وغیرہ میں مستقبل بعید کو نظر میں رکھے گا اور ایسی بنیادی رکھے گا جو صدیوں باقی رہیں لیکن دوسرا شخص عام طور پر یہ سوچے گا کہ عمارے جلد از جلد کھڑی ہو۔ اس کا افتتاح ہو اور وہ شوروغل مچا سکے۔ اور اس کا مقصد حاصل کر سکے۔ پہلا شخص اس کام کے باطن کو مضبوط کرنے کی کوشش کرے گا جبکہ دوسرا شخص ظاہری ٹیپ ٹاپ کا خیال رکھے گا۔ اسی طرح علاج معالجے کی مختلف اقسام، ڈاکٹروں اور نرسوں کے انتخاب اور اس ہسپتال کی دیگر ضروریات کے انتخاب میں ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہوگا کیونکہ ان کے مقاصد عمل کا اثر ہر مقام پر ہوگا۔ بالفاظ دیگر عمل کو وہ اپنے رنگ میں پیش کریں گے۔

4۔ ’’حیاتِ طیبہ‘‘ کیا ہے؟
 ’’حیات طیبہ‘‘ (پاکیزہ زندگی) کی مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں:
بعض نے اسے حلال روزی کے معنی میں لیا ہے۔
بعض نے قناعت اور نصیب پر راضی رہنا مراد لیا ہے۔
برض نے روزانہ کا رزْ سمجھا ہے۔
بعض نے حلال روزی کے ساتھ بجا لائی جانے والی عبادت کا مفہوم لیا ہے۔
اور بعض نے اطاعت ِ حکم خدا کی توفیق وغیرہ کا مطلب لیا ہے۔
لیکن شاید یاد دہانی کی ضرورت نہ ہو کہ حیاتِ طیبہ کا مفہوم اتنا وسیع ہے کہ یہ سب مطالب اور ان کے علاوہ دوسری چیزیں بھی اس کے اندر سموئی ہوئی ہیں۔ پاکیزہ زندگی کہ جوہر لحاظ سے آلودگی، ظلم، خیانت، عداوت، ذلت، پریشانی اور بد بختی سے پاک ہو ایسی زندگی کہ جس کے پاک و شفاف چشمے میں ایسی کوئی آلودگی نہ ہو کہ اس کا پانی انسان کے حلق کے لیے ناگوار ہو جائے۔
البتہ اس سے پہلے جو گفتگو آئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیات ِ طیبہ اس دنیا کے لیے مربوط ہے اور جزائے احسن آخرت کے ساتھ۔ یہ بات جاذب ِ نظر ہے کہ نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ:
 وسئل عن قولہ تعالی:
 ’’فلنحیینہ حیٰوۃ طیبۃ‘‘
 فقال،
 ھی القناعۃ
 آپ ﷺ سے اللہ تعالٰی کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا گیا
 فلنحیینہ حیٰوۃ طیبۃ
 آپ نے فرمایا۔
 یہ قناعت ہے۔ ۱؎
اس میں شک نہیں کہ اس تفسیر کا مطلب یہ نہیں کہ ’’حیات طیبہ‘‘ کا مفہوف قناعت میں محدود ہے بلکہ اس میں ایک مصداق بیان کیا گیا ہے لیکن یہ بات واضح مصداق ہے کیونکہ اگر انسان کو ساری دنیا دے دی جائے لیکن اس سے قناعت کی روح لے لی جائے تو وہ ہمیشہ تکلیف و آزار اور رنج و پریشانی میں رہے گا اس کے برعکس اگر انسان میں جذبہ قناعت
--------------------------------------------------
۱؎ نہج البلاغہ، کلمات قصاء ص ۲۲۹۔
--------------------------------------------------

موجود ہو اور وہ حرص و طمع سے محفوظ ہو تو وہ ہمیشہ آسودہ خاطر اور خوش و خرم رہے گا۔
اسی طرح بعض دیگر روایات میں بتایا گیا ہے کہ حیاتِ طیبہ یہ ہے کہ انسان اس پر راضی رہے، جو کچھ خدا نے دیا ہے۔ 
ان روایات کا مفہوم ’’قناعت‘‘ کے قریب قریب ہے۔ البتہ معافی کو ان مفاہیم میں ہر گز منحصر نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ رضا و قناعت کو بیان کرنے کا ہیاں اصلی مقصد حرص و آزار اور طمع و ہوا پرستی کوختم کرنا ہے  کیونکہ یہ ہی تجاوز، لوٹ کھسوٹ، جنگوں اور خوں ریزی کے عامل ہیں اور یہ ہی بعض اوقات ذلت و رسوائی کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔