Tafseer e Namoona

Topic

											

									   آثار گناہ نے احاطہ کرلیا ہے ” سے کیا مراد ہے

										
																									
								

Ayat No : 80-82

: البقرة

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ۸۰بَلَىٰ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۸۱وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۸۲

Translation

یہ کہتے ہیں کہ ہمیں آتش جہّنم چند دن کے علاوہ چھو بھی نہیں سکتی. ان سے پوچھئے کہ کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے جس کی وہ مخالفت نہیں کرسکتا یا اس کے خلاف جہالت کی باتیں کررہے ہو. یقینا جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کی غلطی نے اسے گھیر لیا وہ لوگ اہلِ جہّنم ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں. اور جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے وہ اہل جنّت ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں.

Tafseer

									لفظ خطیئہ بہت سے مواقع پر ان گناہوں کو کہا جاتا ہے جو جان بوجھ کر سرزد نہ ہوئے ہوں لیکن محل بحث آیت میں گناہ کبیرہ کے معنی میں آیا ۱ ہے یا اس سے مراد ہے اثار گناہ ۲ جو انسان کے دل و جان پر مسلط ہوجاتے ہیں ۔
بہر حال احاطہ گناہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس قدر گناہوں میں ڈوب جائے کہ اپنے لئے ایک ایسا قید خانہ بنالے جس کے سوراخ بند ہوں ۔
اس کی توضیح یوں ہے کہ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا ابتدا ء میں ایک عمل ہوتا ہے ۔ پھر وہ ایک حالت و کیفیت میں بدل جاتا ہے اس کا دوام و تسلسل ملکہ و عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور جب وہ شدید ترین ہوجاتا ہے تو انسان کا وجود گناہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔ یہ وہ حالت ہے جب کسی قسم کا پند و نصیحت ، موعظہ اور رہنماؤں کی رہنمائی اس کے وجود پر اثر انداز نہیں ہوتی اور حقیقت میں اپنے ہاتھوں اپنی یہ حالت بناتا ہے ۔ ایسے اشخاص ان کیڑوں کی مانند ہیں جو اپنے گرد جال تن لیتے ہیں جو انہیں قیدی بنا کر بالآخر ان کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔
واضح ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ہمیشہ جہنم میں رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ۔
کچھ آیات ہیں جن کے مطابق خدا صرف مشرکین کو نہیں بخشے گا لیکن غیر مشرک قابل بخشش ہیں مثلاََ :
ان اللہ لا یغفران یشرک بہ و یغفر مادون ذٰلک لمن یشاٰء  نساء ۔ ۴۸
ایسی آیا ت اور زیر بحث آیات جن میں ہمیشہ جہنم میں رہنے کا تذکرہ ہے اگر ان دونوں طرح کی آیات کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسطرح کے گنہگار آخر کار گوہر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور وہ مشرک و بے ایمان ہو کر دنیا سے جاتے ہیں ۔


 
1۔ تفسیر کبیر از فخر الدین رازی ، آیہ کے ذیل میں ۔
۲۔ تفسیر المیزان ، آیہ مذکورہ کے زیل میں ۔