(۱) غلط کمائی
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ۸۰بَلَىٰ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۸۱وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۸۲
یہ کہتے ہیں کہ ہمیں آتش جہّنم چند دن کے علاوہ چھو بھی نہیں سکتی. ان سے پوچھئے کہ کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے جس کی وہ مخالفت نہیں کرسکتا یا اس کے خلاف جہالت کی باتیں کررہے ہو. یقینا جس نے کوئی برائی حاصل کی اور اس کی غلطی نے اسے گھیر لیا وہ لوگ اہلِ جہّنم ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں. اور جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے وہ اہل جنّت ہیں اور وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں.
کسب اور اکتساب کا معنی ہے جان بوجھ کر ، اپنے اختیار سے کوئی چیز حاصل کرنا ۔ اس لحاظ سے” بلی من کسب سیئة “ ایسے اشخاص کی طرف اشارہ ہے جو علم ، ارادہ اور اختیار سے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ” کسب “ شاید اس لئے ہے کہ سر سری نظر میں گنہ گار گناہ کو اپنے نفع میں اور اس کے ترک کرنے کو اپنے نقصان میں سمجھتا ہے ۔ ایسے لوگوں ہی کے بارے میں چند آیات کے بعد اشارہ ہوگا جہاں فرمایا گیا ہے :
انہوں نے آخرت کو اس دینا کی زندگی کے لئے بیچ ڈالا اور ان کی سزا میں کسی قسم کی تخفیف نہیں ہے ۔