قتل کا سبب کیا تھا
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ۶۷قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ۶۸قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ۶۹قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ۷۰قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ ۷۱وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ ۷۲فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ۷۳ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۷۴
اور وہ موقع بھی یاد کروجب موسٰی علیھ السّلام نے قوم سے کہا کہ خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں مذاق بنا رہے ہیں. فرمایا پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں. ان لوگوں نے کہا کہ اچھا خدا سے دعا کیجئے کہ ہمیں اس کی حقیقت بتائے. انہوں نے کہا کہ ایسی گائے چاہئے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچہ. درمیانی قسم کی ہو. اب حکم خدا پر عمل کرو. ان لوگوں نے کہا یہ بھی پوچھئے کہ رنگ کیا ہوگا. کہا کہ حکم خدا ہے کہ زرد بھڑک دار رنگ کی ہو جو دیکھنے میں بھلی معلوم ہو. ان لوگوں نے کہا کہ ایسی تو بہت سی گائیں ہیں اب کون سی ذبح کریں اسے بیان کیاجائے ہم انشائ اللرُ تلاش کرلیں گے. حکم ہوا کہ ایسے گائے جو کاروباری نہ ہونہ زمین جوتے نہ کھیت سینچے ایسی صاف ستھری کہ اس میں کوئی دھبّہ بھی نہ ہو. ان لوگوں نے کہا کہ اب آپ نے ٹھیک بیان کیا ہے. اس کے بعد ان لوگوں نے ذبح کردیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے. اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا اور اس کے قاتل کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے جبکہ خدا اس راز کا واضح کرنے والا ہے جسے تم چھپا رہے تھے. تو ہم نے کہا کہ مقتول کو گائے کے ٹکڑے سے مس کردو خدا اسی طرح مفِدوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے. پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے.
تواریخ ا ور تفاسیرسے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قتل کا سبب مال تھا یا شادی ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک ثروت مند شخص تھا ۔ جس کے پاس بے پناہ دولت تھی ۔ اس د ولت کا وارث اس کے چچا زاد بھائی کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔وہ دولت مند کافی عمر رسید ہ ہوچکا تھا ۔ اس کے چچا زاد بھائی نے بہت انتظار کیا کہ دنیا سے چلا جائے تاکہ اس کا وارث بن سکے لیکن اس کا انتظار بے نتیجہ رہا لہذا اس نے اسے ختم کردینے کا تہیہ کرلیا اور بالآخر اسے تنہائی میں پاکر قتل کردیا اور اس کی لاش سڑک پر رکھ دی اور گریہ و زاری کرنے لگا اور حضرت موسیٰ کی بارگاہ میں مقدمہ پیش کیا کہ بعض لوگوں نے میرے چچا زاد بھائی کو قتل کردیا ہے ۔
بعض دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ قتل کا سبب یہ تھا کہ اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرنے والے نے اس سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا لیکن اس نے یہ درخواست رد کردی اور لڑکی کو بنی اسرائیل کے ایک پاکباز جوان سے بیاہ دیا ۔ شکست خوردہ چچا زاد نے لڑکی کے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور چھپ کر اسے قتل کردیا ۔ اور حضرت موسی ٰ کے پاس شکایت لے کر آیا کہ اس کا چچا زاد بھائی قتل ہوگیا اور اس کے قاتل کو تلاش کیا جائے ۔
چونکہ قرآن کا طریق کار ہے کہ گذشتہ واقعات کو ہمہ گیر حیثیت سے اور قاعدہ کلیہ کے طور پر تربیتی نقطہ نظر سے بیان کرے لہذا ضمناََ یہ بھی ممکن ہے اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ مفاسدہ کا سر چشمہ اور قتل و غارت کی وجہ دو موضوعات ہوتے ہیں ایک ثروت و دولت اور دوسرا بے قید جنسی خواہشات ۔