(۲) یہ تمام اوصاف کس لئے تھے
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ۶۷قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ۶۸قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ۶۹قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ۷۰قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ ۷۱وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ ۷۲فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ۷۳ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۷۴
اور وہ موقع بھی یاد کروجب موسٰی علیھ السّلام نے قوم سے کہا کہ خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں مذاق بنا رہے ہیں. فرمایا پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں. ان لوگوں نے کہا کہ اچھا خدا سے دعا کیجئے کہ ہمیں اس کی حقیقت بتائے. انہوں نے کہا کہ ایسی گائے چاہئے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچہ. درمیانی قسم کی ہو. اب حکم خدا پر عمل کرو. ان لوگوں نے کہا یہ بھی پوچھئے کہ رنگ کیا ہوگا. کہا کہ حکم خدا ہے کہ زرد بھڑک دار رنگ کی ہو جو دیکھنے میں بھلی معلوم ہو. ان لوگوں نے کہا کہ ایسی تو بہت سی گائیں ہیں اب کون سی ذبح کریں اسے بیان کیاجائے ہم انشائ اللرُ تلاش کرلیں گے. حکم ہوا کہ ایسے گائے جو کاروباری نہ ہونہ زمین جوتے نہ کھیت سینچے ایسی صاف ستھری کہ اس میں کوئی دھبّہ بھی نہ ہو. ان لوگوں نے کہا کہ اب آپ نے ٹھیک بیان کیا ہے. اس کے بعد ان لوگوں نے ذبح کردیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے. اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا اور اس کے قاتل کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے جبکہ خدا اس راز کا واضح کرنے والا ہے جسے تم چھپا رہے تھے. تو ہم نے کہا کہ مقتول کو گائے کے ٹکڑے سے مس کردو خدا اسی طرح مفِدوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے. پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے.
جیسا کہ ہم کہ چکے ہیں ابتداء میں بنی اسرائیل کی ذمہ داری مطلق تھی اور اس میں کوئی قید و شرط نہ تھی لیکن ان کی شدت اور ذمہ داری ادا کرنے میں پس و پیش نے ان کے لئے حکم کو بدل دیا اور زیادہ سخت ہوگیا ۱
لیکن اس کے باوجود یہ بھی ممکن ہے کہ بعد میں جو شرائط اور قیود لگائی گئیں وہ انسانی برادری کی اجتماعی زندگی کی کسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوں ۔ گویا قرآن اس نکتے کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ کہ ایک ایسی حیات بخش صورت کی ضرورت ہے جو ذلول نہ ہو یعنی بلا شرط تسلیم ہو اور قید و شرط کی وجہ سے بوجھل ، اسیر اور زبردست نہ ہو اور یو نہی اس میں مختلف رنگ بھی نظر نہیں آنے چاہئیں بلکہ یک رنگ اور خالص ہو ۔
جو لوگ رہبری اور معاشرے کو زندہ کرنے کے لئے اٹھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مردہ افکار کو زندہ کیا جائے انہیں دوسروں کا مطیع نہیں ہونا چاہئے ۔ مال و ثروت ، فقر و تونگری ، طاقت اور افرادی قوت یہ چیز یں ان کے مقصد پر اثر انداز نہ ہوں ۔ خدا کے علاوہ کوئی چیز ان کے دل میں جاگزیں نہ ہو ۔ وہ صرف حق کے لئے سرتسلیم خم کریں ۔ وہ دین و آئین کے پا بند ہوں ۔ ان کے وجود پر خدائی رنگ کے علا وہ کوئی رنگ اثر پزیر نہ ہو ۔ ایسے ہی لوگ اضطراب اور تشویش کے بغیر لوگوں کے کام آسکتے ہیں لیکن اگر دل دنیا کی طرف مائل ہو اور دنیا کا غلام ہو ۔ اس پر مادیت رنگ چڑھ گیا ہو اور اس رنگ کی وجہ سے وہ عیب دار ہوجائے تو ایسا شخص اس عیب اور نقص کی وجہ سے مردہ دلوں کو زندہ نہیں کرسکتا اور نہ حیات بخش صورت پیدا کرسکتا ہے۔
۱۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمل سے پہلے نسخ حکم مصالح کے پیش نظر جائز ہے اور شریعت موسیٰ میں نسخ احکام ہوتا تھا ۔ یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ کبھی سخت حکم سزا کے لئے بھی ہوتا ہے ۔اس سلسلے کی دیگر بحثیں اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں ۔