Tafseer e Namoona

Topic

											

									  (۴) اس داستان کے عبرت خیز نکات

										
																									
								

Ayat No : 67-74

: البقرة

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ۶۷قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ۶۸قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ۶۹قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ۷۰قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ ۷۱وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ ۷۲فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ۷۳ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۷۴

Translation

اور وہ موقع بھی یاد کروجب موسٰی علیھ السّلام نے قوم سے کہا کہ خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں مذاق بنا رہے ہیں. فرمایا پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں. ان لوگوں نے کہا کہ اچھا خدا سے دعا کیجئے کہ ہمیں اس کی حقیقت بتائے. انہوں نے کہا کہ ایسی گائے چاہئے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچہ. درمیانی قسم کی ہو. اب حکم خدا پر عمل کرو. ان لوگوں نے کہا یہ بھی پوچھئے کہ رنگ کیا ہوگا. کہا کہ حکم خدا ہے کہ زرد بھڑک دار رنگ کی ہو جو دیکھنے میں بھلی معلوم ہو. ان لوگوں نے کہا کہ ایسی تو بہت سی گائیں ہیں اب کون سی ذبح کریں اسے بیان کیاجائے ہم انشائ اللرُ تلاش کرلیں گے. حکم ہوا کہ ایسے گائے جو کاروباری نہ ہونہ زمین جوتے نہ کھیت سینچے ایسی صاف ستھری کہ اس میں کوئی دھبّہ بھی نہ ہو. ان لوگوں نے کہا کہ اب آپ نے ٹھیک بیان کیا ہے. اس کے بعد ان لوگوں نے ذبح کردیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے. اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا اور اس کے قاتل کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے جبکہ خدا اس راز کا واضح کرنے والا ہے جسے تم چھپا رہے تھے. تو ہم نے کہا کہ مقتول کو گائے کے ٹکڑے سے مس کردو خدا اسی طرح مفِدوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے. پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے.

Tafseer

									یہ عجیب داستان خدا کی ہر چیز پر لامتناہی قدرت کی دلیل کے علاوہ مسئلہ معاد پر بھی دلالت کرتی ہے ۔ اسی لئے آیہ ۷۳ میں ہے : ”کذٰلک یحی اللہ الموتیٰ “یعنی اسی طرح خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے ۔ یہ مسئلہ معاد کی طرف اشارہ ہے ۔ ” ویریکم آیاتہ “ وہ اپنی آیات تمہیں دکھاتا ہے “ پروردگار کی قدرت و عظمت کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کے علاوہ یہ آیت اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ اگر خدا کسی گروہ پر غضبناک ہوتا ہے تو ایسا بغیر وجہ اور دلیل کے نہیں ہوتا کیونکہ اس واقعے میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے سامنے جو باتیں کرتے تھے وہ نہ صرف حضرت کے ساتھ انتہائی جسارت آمیز سلوک تھا بلکہ خداتعالی کی مقدس بارگاہ کے لحاظ سے بھی بے ادبی اور جسارت تھی ۔ 
ابتداء میں کہتے ہیں ” کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو “ گویا خدا کے عظیم پیغمبر کو مذاق کا الزام دے رہے تھے ۔ بعض اوقات کہتے ” اپنے خدا سے خواہش کرو “ تو کیا موسیٰ کا خدا ان کے خدا کے علاوہ کوئی اور تھا ۔ جب کہ حضرت موسیٰ انہیں صراحت سے کہ چکے تھے کہ ” خدا نے تمہیں حکم دیا ہے “ ایک جگہ کہتے ہیں ” اگر اس سوال کا جواب دے دو تو ہم ہدایت حاصل کرلیں گے “ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا بیان نا مکمل اور گمراہی کا سبب ہے اور آخر میں کہتے ہیں ” اب حق بات لے آئے ہو ۔
یہ سب باتیں ان کی جہالت ، نادانی ، خود خواہی اور ہٹ دھرمی پر دلالت کرتی ہیں ۔
علاوہ از ایں یہ داستان ہمیں درس دیتی ہے کہ ہمیں سخت گیر نہیں ہونا چاہیئے تاکہ خدا بھی ہم پر سختی نہ کرے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ شاید گائے کو ذبح کرنے کے لئے اس سے منتخب کیا گیا ہو کہ بچی کھچی گاؤ پرستی اور بت پرستی کی فکر ان کے دماغ سے نکل جائے ۔