Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ( ۱) زیادہ اور غیر مناسب سوالات

										
																									
								

Ayat No : 67-74

: البقرة

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ۶۷قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ۶۸قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ۶۹قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ۷۰قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ ۷۱وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ ۷۲فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ۷۳ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۷۴

Translation

اور وہ موقع بھی یاد کروجب موسٰی علیھ السّلام نے قوم سے کہا کہ خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں مذاق بنا رہے ہیں. فرمایا پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں. ان لوگوں نے کہا کہ اچھا خدا سے دعا کیجئے کہ ہمیں اس کی حقیقت بتائے. انہوں نے کہا کہ ایسی گائے چاہئے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچہ. درمیانی قسم کی ہو. اب حکم خدا پر عمل کرو. ان لوگوں نے کہا یہ بھی پوچھئے کہ رنگ کیا ہوگا. کہا کہ حکم خدا ہے کہ زرد بھڑک دار رنگ کی ہو جو دیکھنے میں بھلی معلوم ہو. ان لوگوں نے کہا کہ ایسی تو بہت سی گائیں ہیں اب کون سی ذبح کریں اسے بیان کیاجائے ہم انشائ اللرُ تلاش کرلیں گے. حکم ہوا کہ ایسے گائے جو کاروباری نہ ہونہ زمین جوتے نہ کھیت سینچے ایسی صاف ستھری کہ اس میں کوئی دھبّہ بھی نہ ہو. ان لوگوں نے کہا کہ اب آپ نے ٹھیک بیان کیا ہے. اس کے بعد ان لوگوں نے ذبح کردیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے. اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا اور اس کے قاتل کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے جبکہ خدا اس راز کا واضح کرنے والا ہے جسے تم چھپا رہے تھے. تو ہم نے کہا کہ مقتول کو گائے کے ٹکڑے سے مس کردو خدا اسی طرح مفِدوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے. پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت کہ پتھروں میں سے تو بعض سے نہریں بھی جاری ہوجاتی ہیںاور بعض شگافتہ ہوجاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض خورِ خدا سے گر پڑتے ہیں. لیکن اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے.

Tafseer

									اس میں شک نہیں کہ سوالات مشکلات کے حل کی کلید ہیں اور جہل و نادانی کو دور کرنے کا نسخہ ہیں لیکن ہر چیز کی طرح اگر یہ بھی حد سے تجاوز کر جائیں یا بے موقع کئے جائیں تو کجروی کی علامت ہیں اور نقصان دہ ہیں جیسے اس داستان میں ہم اس کو نمونہ دیکھ رہے ہیں ۔
بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں ۔ اس میں شک نہیں کہ اگر اس گائے کی قید یا خاص شرط ہوتی توخدا ئے حکیم و دانا جب انہیں حکم دے رہا تھا اسی وقت بیان کردیتا لہذا معلوم ہوا کہ اس حکم کو بجالانے کےلئے اور شرط نہ تھی اسی لئے لفظ ” بقرة “ اس مقام پر نکرہ کی شکل میں ہے لیکن وہ اس مسلمہ بنیاد سے بے پرواہ ہوکر طرح طرح کے سوالات کرنے لگے ۔ شاید وہ یہ چاہتے ہوں کہ حقیقت مشتبہ ہوجائے اورقا تل کا پتہ نہ چل سکے اور یہ اختلاف اسی طرح بنی ا سرائیل میں رہے ، اور قرآن کا یہ جملہ ” فذبحوھا وما کادو یفعلون “ بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ” انہوں نے گائے ذبح کر تو دی لیکن وہ چاہتے نہ تھے کہ یہ کام انجام پائے “۔
اس داستان کے سلسلے کی آیت ۷۲ سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک گروہ قاتل کو جانتا تھا اور اصل واقعے سے مطلع تھا ۔ شاید یہ قتل ان کے سوچنے سمجھنے منصوبے کے مطابق کیا گیا تھا کیونکہ اس آیت میں ہے ” واللہ مخرج ما کنتم تکتنون “ یعنی تم جسے چھپاتے ہو خدا اسے آشکار کردے گا “۔
ان سب سے قطع نظر ہٹ دھرم اور خواد پسند قسم کے لوگ باتیں بنایا کرتے ہیں اور زیادہ سولات کرتے ہیں اور ہر چیز کے لئے بہانہ سازی کیا کرتے ہیں ۔ قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ اصولی طور پر وہ خدا کے متعلق معرفت رکھتے تھے اور نہ ہی حضرت موسی ٰ کے مقام کو سمجھتے تھے اسی لئے تو ان سب سوالوں کے بعد یہ کہنے لگے ” اٰلان جئت بالحق “ یعنی اب تم حق بات لائے ہو گویا اس سے پہلے جو کچھ تھا باطل تھا ۔
بہر حال انہوں نے جتنے سوالات کئے خدا نے ان کی ذمہ داری کو اتنا ہی سخت تر کر دیا کیونکہ ایسے لوگ اسی قسم کے بدلے کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اسی لئے روایات میں ہے کہ جس مقام پرخدا نے خاموشی اختیار کی ہے وہاں پوچھ گچھ اور سوال نہ کرو کیونکہ اس میں ضرو ر کوئی حکمت ہوگی ۔ اسی بناء امام علی بن موسی ٰ الرضا سے روایت ہے: 
اگر انہوں نے ابتداء ہی میں کوئی گائے منتخب کرلی ہوتی اور اسے ذبح کردیتے تو کافی تھا ۔
ولکن شدداوفشد اللہ علیھم 
لیکن انہوں نے سختی کی تو خدا نے بھی سخت رویہ اختیار کیا ۔ ۱

 

۱ المیزان زیر بحث آیت کے ذیل میں بحوالہ تفسیر عیاشی ۔