Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۵۔ دروغ گو حافظہ ندارد

										
																									
								

Ayat No : 15-18

: يوسف

فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ۱۵وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ ۱۶قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ۱۷وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ۱۸

Translation

اس کے بعد جب وہ سب یوسف کو لے گئے اور یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کردی کہ عنقریب تم ان کو اس سازش سے باخبر کرو گے اور انہیں خیال بھی نہ ہوگا. اور وہ لوگ رات کے وقت باپ کے پاس روتے پیٹے آئے. کہنے لگے بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو ایک بھیڑیا آکر انہیں کھاگیا اور آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں. اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگاکر لے آئے -یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے لہذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگارہے.

Tafseer

									حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ بھائیوں کے سلوک کی داستان سے یہ مشہور حقیقت پھر درجہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ جھوٹا آدمی ہمیشہ کے لئے اپنا راز نہیں چھپا سکتا کیونکہ عینی حقائق جب خارجی وجود حاصل کرلیتے ہیں تو دیگر امور کے ساتھ ان کے بے شمار روابط ہوتے ہیں اور جھوٹا آدمی جو اپنے جھوٹ کے ذریعے ایک غلط منظر تخلیق کرنا چاہتا ہے تو وہ جس قدر بھی زیرک وہوشیار ہو ان تمام روابط کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، بالفرض اگر وہ مسئلہ سے متعلق چند جعلی رابطے تیار بھی کرلے پھر بھی یہ بناوٹی رابطے حافظے میں ہمیشہ کے لئے رکھنا آسان کام نہیںہے اور اس سے تھوڑی غفلت تضاد بیانی کا سبب بن جاتی ہے، علاوہ ازیں ان میں سے بہت سے روابط غفلت میں رہ جاتے ہیں اور انہی سے آخر کار حقیقت فاش ہوجاتی ہے، اور یہ ان تمام افراد کے لئے ایک درس ہے جنہیں اپنی عزت وآبرو  ہے کہ وہ کبھی جھوٹ کا طواف نہ کریں، اپنی معاشرتی حیثیت کو خطرے میں نہ ڈالیں اور اپنے لئے خدا کا غضب نہ خریدیں ۔