Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۴۔ تسویلِ نفس سے کیا مراد ہے؟

										
																									
								

Ayat No : 15-18

: يوسف

فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ۱۵وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ ۱۶قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ۱۷وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ۱۸

Translation

اس کے بعد جب وہ سب یوسف کو لے گئے اور یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کردی کہ عنقریب تم ان کو اس سازش سے باخبر کرو گے اور انہیں خیال بھی نہ ہوگا. اور وہ لوگ رات کے وقت باپ کے پاس روتے پیٹے آئے. کہنے لگے بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو ایک بھیڑیا آکر انہیں کھاگیا اور آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں. اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگاکر لے آئے -یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے لہذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگارہے.

Tafseer

									لفظ” سوّلت“ تسویل کے مادہ سے”تزئین“ کے معنی میں ہے، بعض اوقات اس کا معنی ”وسوسہ پیدا کرنا “بھی بیان کیا جاتا ہے، ان تمام معانی کی بازگشت تقریبا ًایک ہی مفہوم کی طرف ہے یعنی تمہاری نفسیاتی خواہشات نے تمہارے لئے یہ کام مزین کردیاہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس وقت سرکش ہواوہوس انسانی روح اور فکر پر غلبہ کرلیتی ہے تو بدترین جرائم مثلاً بھائی کو قتل کرنا یا جلا وطن کرنا وغیرہ بھی انسان کی نظر میں ایسے پسندیدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ انہیں ایک مقدس اور ضروری چیز خیال کرنے لگتا ہے، یہاں سے نفسیاتی مسائل کی ایک عمومی بنیاد کی طرف دریچہ کُھلتا ہے وہ یہ کہ ہمیشہ کسی ایک مسئلے کی طرف افراطی میلان خصوصاً جب اس میں اخلاقی رذائل بھی شامل ہوں انسان کی قوتِ شناخت پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس کی نظر میں حقائق کو الٹ کر پیش کرتا ہے ۔
اسی لئے تہذیبِ نفس کے بغیر فیصلہ کرنا اور عینی حقائق کو پہچاننا ممکن نہیں ہے اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ قاضی کے لئے عدالت شرط ہے تو اس کی دلیل یہی ہے اور قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیہ ۲۸۲بھی اسی طرف اشارہ ہے، جس میں فرمایا گیا ہے:
<واتقوا اللّٰہ ویعلِّمکم اللّٰہ ۔
اور تقویٰ اختیار کرو خدا تمہیں علم ودانش دے گا ۔