Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ایک اہم سوال

										
																									
								

Tafseer

									یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس بات کوکیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ قرآن رسول اللہ ﷺ  کے زمانے میں جمع ہوا  جبکہ علماء کے ایک گروہ میں مشہور ہے کہ قرآن پیغمبر اکرم ﷺ  کے بعد جمع ہوا ہے (حضرت علی کے ذریعے یا دیگر اشخاص کے ذریعے)۔ 
جواب: جو قرآن حضرت علی )علیہ السلام( نے جمع کیا تھا وہ قرآن، تفسیر، شان نزول آیات وغیرہ کا مجموعہ تھا۔ باقی رہا حضرت عثمان کا معاملہ تو ہمارے پاس ایسے قرائن موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اختلاف قرائت کو روکنے کے لئے اسے ایک قرائت اور نقطہ گذاری کے ساتھ معین کیا کیونکہ اس وقت تک نقطے لگانا معمولات میں داخل نہیں تھا۔ 
رہا بعض لوگوں کا یہ اصرار کہ قرآن کسی طرح بھی رسول اللہ کے زمانے میں جمع نہیں ہوا اور یہ اعزاز حضرت عثمان، خلیفہ اول یا خلیفہ دوم کو حاصل ہوا ہے۔ شاید اس سے زیادہ تر مقصود فضیلت سازی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گروہ اس فضیلت کی نسبت خاص شخصیت کی طرف دیتا ہے اوراسی سے متعلق روایت پیش کرتا ہے۔ اصولی اور بنیادی طور پر یہ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ  نے اس اہم ترین کام کو نظر انداز کردیا ہو حالانکہ آپ ﷺ  تو چھوٹے چھوٹے کاموں کی طرف بھی توجہ دیتے تھے  جبکہ قرآن، اسلام کا اصول اساسی ہے، تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب ہے اور تمام اسلامی پروگراموں اور عقاید کی بنیاد ہے۔ کیا نبی اکرم ﷺ  کے زمانے میں جمع نہ ہونے سے یہ خطرہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے یا مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں؟ 
علاوہ ازیں حدیث ثقلین جسے شیعہ و سنی دونوں نے نقل کیا ہے، گواہی دیتی ہے کہ قرآن کتابی صورت میں رسول اللہ ﷺ  کے زمانے میں جمع ہوچکا تھا۔ 
پیغمبر اکرم ﷺ  نے فرمایا : 
میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں اور تم میں دو چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں ،خدا کی کتاب اور میرا خاندان۔ 
وہ روایات جودلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ  کی زیر نگرانی صحابہ نے قرآن جمع کیا تھا، ان میں صحابہ کی تعداد مختلف بیان ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہر روایت نے چند ایک کی نشاندہی کی ہے۔ اس سے کام فقط ان شخصیتوں میں منحصر نہیں ہو جاتا لہذا یہ پہلو باعث اختلاف نظر نہیں ہونا چاہئے۔