Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تفسیر بسم اللہ الرحمن الرحیم

										
																									
								

Ayat No : 1

: الفاتحة

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۱

Translation

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے.

Tafseer

									تمام لوگوں میں یہ رسم ہے کہ ہر اہم اور اچھے کام کا آغاز کسی بزرگ کے نام سے کرتے ہیں۔ کسی عظیم عمارت کی پہلی اینٹ اس شخص کے نام پر رکھی جاتی ہے جس سے بہت زیادہ قلبی لگاؤ ہو یعنی اس کام کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے نام منسوب کر دیتے ہیں۔ مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ کسی پروگرام کودوام بخشنے اور کسی مشن کو برقرار رکھنے کے لئے اسے ایسی ہستی سے منسوب کیا جائے جو پائیدار، ہمیشہ رہنے والی ہو اور جس کی ذات میں فنا کا گزر نہ ہو۔ اس جہاں کی تمام موجودات کہنگی پذیر ہیں اور زوال کی طرف رواں دواں ہیں۔ صرف وہی چیز باقی رہ جائےگی، جو اس ذات لایزال سے وابستہ ہوگی۔ 
انبیاء و مرسلین کے نام باقی ہیں تو پروردگار عالم سے رشتہ جوڑنے اور عدالت و حقیقت پر قائم رہنے کی وجہ سے اور یہ وہ رشتہ ہے جو زوال آشنا نہیں۔ اگر حاتم کا نام باقی ہے تو سخاوت کے باعث جو زوال پذیر نہیں۔ تمام موجودات میں سے فقط ذات خدا ازلی و ابدی ہے ۔ اس لئے چاہئے کہ تمام امور کو اس کے نام سے شروع کیا جائے۔ اس کے سائے میں تمام چیزوں کو قرار دیا جائے اور اسی سے مدد طلب کی جائے۔ 
اسی لئے قرآن کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ اپنے امورکو برائے نام خدا سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ حقیقتا اور واقعتا خدا سے رشتہ جوڑنا چاہئے کیونکہ یہ ربط انسان کو صحیح راستہ پر چلائے گا اور ہر قسم کی کجروی سے باز رکھے گا۔ ایسا کام یقینا تکمیل کو پہنچے گا اور باعث برکت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ   کی مشہور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں: 
کل امر ذی بال لم یذکر فیہ اسم اللہ فھو ابتر 
جو بھی اہم کام خدا کے نام کے بغیرشروع ہوگا ناکامی سے ہمکنار ہوگا۔(بحوالہ: تفسیر البیان، جلد اول، ص۴۶۱ بحوالہ بحار، جلد ۶، باب ۵۸۔)
انسان جس کام کو انجام دینا چاہے، چاہئے کہ بسم اللہ کہے اور جو عمل خدا کے نام سے شروع ہو وہ مبارک ہے۔ 
امام باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : 
جب کوئی کام شروع کرنے لگو، بڑاہو یا چھوٹا بسم للہ کہوتاکہ وہ بابرکت بھی ہو اور پرا ز امن و سلامتی بھی۔ 
خلاصہ یہ کہ کسی عمل کی پائیداری و بقا اس کے ربط خدا سے وابستہ ہے۔ اسی مناسبت سے جب خدا وند تعالی نے پیغمبر اکرم ﷺ   پر پہلی وحی نازل فرمائی تو انہیں حکم دیا کہ تبلیغ اسلام کی عظیم ذمہ داری کو خدا کے نام سے شروع کریں۔ 
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
ہم دیکھتے ہیں کہ جب تعجب خیز اور نہایت سخت طوفان کے عالم میں حضرت نوح کشتی پر سوار ہوئے، پانی کی موجیں پہاڑوں کی طرح بلند تھیں اور ہر لحظہ بے شمار خطرات کا سامنا تھا۔ ایسے میں منزل مقصود تک پہنچنے اور مشکلات پر قابو پانے کے لئے آپ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ کشتی کے چلتے اور رکتے بسم اللہ کہو۔ 
وَقَالَ ارْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ اللّهِ مَجْرِےهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ( ہود، آیت ۴۱)۔ 
چنانچہ ان لوگوں نے اس پر خطر سفر کو توفیق الہی کے ساتھ کامیابی سے طے کر لیا اور امن و سلامتی کے ساتھ کشتی سے اترے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے:
قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ ۚ
حکم ہوا اے نوح (کشتی سے) ہماری طرف سے سلامتی او ربرکات کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اتریے (ہود، آیت ۴۸ )۔ 
جناب سلیمان نے جب ملکہ سبا کو خط لکھا تو اس کا سرنامہ بسم اللہ ہی کو قرار دیا۔ 
إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
یہ (مراسلہ) ہے سلیمان کی طرف سے اور بے شک یہ ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم(نمل، آیت ۳۰)۔
 اسی بناء پر قرآن حکیم کی تمام سورتوں کی ابتدا ٴ بسم اللہ سے ہوتی ہے تا کہ نوع بشر کی ہدایت و سعادت کا اصلی مقصد کامیابی سے ہمکنار ہو اور بغیر کسی نقصان کے انجام پذیر ہو۔ صرف سورہ توبہ ایسی سورت ہے جس کی ابتداء میں ہمیں بسم اللہ نظر نہیں آتی کیونکہ اس کا آغاز مکہ کے مجرموں او رمعاہدہ شکنوں سے اعلان جنگ کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ لہذا ایسے موقع پر خدا کی صفات رحمان و رحیم کا ذکر مناسب نہیں۔ 
یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ کہ ہر جگہ بسم اللہ کہا جاتا ہے بسم الخالق یا بسم الرزاق وغیرہ نہیں کہا جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ اللہ خدا کے تمام اسما اور صفات کا جامع ہے۔ اس کی تفصیل عنقریب آئے گی۔ اللہ کے علاوہ دوسرے نام بعض کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مثلا خالقیت، رحمت وغیرہ۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ کہنا جہاں خدا سے طلب مدد کے لئے ہے وہاں اس کے نام سے شروع کرنے کے لئے بھی ہے۔ اگرچہ ہمارے بزرگ مفسرین نے طلب مدد اور شروع کرنے کو ایک دوسرے سے جدا قرار دیا ہے خلاصہ یہ کہ آغاز کرنا او رمدد چاہنا ہر دو مفہوم یہاں پر لازم و ملزوم ہیں۔ 
بہرحال جب تمام کام خدا کی قدرت کے بھروسہ پر شروع کئے جائیں تو چونکہ خدا کی قدرت تمام قدرتوں سے بالاتر ہےاس لئے ہم اپنے میں زیادہ قوت و طاقت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ زیاد مطمئن ہو کر کوشش کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی مشکلات کا خوف نہیں رہتا اور مایوسی پیدا نہیں ہوتی اور اس کے ساتھ ساتھ اس سے انسان کی نیت اورعمل زیادہ پاک اور زیادہ خالص رہتا ہے۔ 
اس آیت کی تفسیر میں جتنی گفتگو کی جائے کم ہے کیونکہ مشہور ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) ابتدائے شب سے صبح تک ابن عباس کے سامنے بسم اللہ کی تفسیر بیان فرماتے رہے صبح ہوئی تو آپ بسم کی “ب” سے آگے نہیں بڑھے تھے۔ آنحضرت (علیہ السلام) ہی کے ایک ارشاد سے ہم یہاں اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ آئندہ مباحث میں اس سلسلے کے دیگر مسائل پرگفتگو ہوگی۔ 
عبداللہ بن یحیی امیرالمومنین )علیہ السلام( کے محبوں میں سے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بسم اللہ کہے بغیر اس چارپائی پر بیٹھ گئے جو وہاں پڑی تھی۔ اچانک وہ جھکے اور زمین پر آ گرے۔ ان کا سر پھٹ گیا۔ حضرت علی(علیہ السلام) نے سر پر ہاتھ پھیرا تو ان کا زخم مندمل ہوگیا۔ آپ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی اکرم ﷺ  نے خدا کی طرف سے یہ حدیث مجھ سے بیان فرمائی ہے کہ جو کام نام خدا کے بغیر شروع کیا جائے بے انجام رہتا ہے۔ (عبداللہ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں یہ جانتا ہوں او راب کے بعد پھر اسے ترک نہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا: پھر تو تم سعادتوں سے بہرہ ور ہوگئے۔ 
امام صادق(علیہ السلام) نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: 
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے بعض شیعہ کام کی ابتداء میں بسم اللہ ترک کردیتے ہیں اور خدا انہیں کسی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ وہ بیدار ہوں اور ساتھ ساتھ یہ غلطی بھی ان کے نامہ عمل سے دھو ڈالی جائے۔(بحوالہ: سفینة البحار، جلد اول، ص۶۳۳۔)