اس سورہ کا نام فاتحة الکتاب کیوں ہے؟
فاتحة الکتاب کا معنی ہے آغاز کتاب(قرآن) کرنے والی۔ مختلف روایات جو نبی اکرم ﷺ سے نقل ہوئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سورت آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی اسی نام سے پہچانی جاتی تھی۔ یہیں سے دنیائے اسلام کے ایک اہم ترین مسئلے کی طرف فکر کا دریچہ کھلتا ہے اور وہ ہے جمع قرآن کے بارے میں۔ ایک گروہ میں یہ بات مشہور ہے کہ قرآن مجید نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں منتشر و پراگندہ صورت میں تھا اور آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر،حضرت عمر یا حضرت عثمان کے زمانے میں جمع ہوا لیکن “فاتحة الکتاب “ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید پیغمب اکرم ﷺ کے زمانے میں اسی موجودہ صورت میں جمع ہوچکا تھا اور اسی سورہ حمد سے اس کی ابتداء ہوئی تھی۔ ورنہ یہ کوئی سب سے پہلے نازل ہونے والی سورہ تو نہیں جو یہ نام رکھا جائے اور نہ ہی اس سورة کے لئے فاتحة الکتاب نام کے انتخاب کے لئے کوئی دوسری دلیل موجود ہے۔ بہت سے دیگر مدارک بھی ہمارے پیش نظر ہیں جو اس حقیقت کے موید ہیں کہ قرآن مجید بصورت مجموعہ جس طرح ہمارے زمانے میں موجود ہے اسی طرح پیغمبر اکرم ﷺ کے زمانے میں آپ کے حکم کے مطابق جمع ہوچکا تھا۔ ان میں سے چند ایک ہم پیش کرتے ہیں :
۱۔ علی بن ابراہیم نے حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے :
رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی )علیہ السلام( سے فرمایا کہ قرآن ریشم کے ٹکڑوں، کاغذ کے پرزوں اور ایسی دوسری چیزوں میں منتشر ہے، اسے جمع کردو۔ اس پر حضرت علی(علیہ السلام) مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کو زرد رنگ کے پارچے میں جمع کیا اور پھر اس پر مہر لگا دی۔
انطلق علی فجمعہ فی ثوب اصفر ثم ختم علیہ (بحوالہ: تاریخ القرآن، ابوعبداللہ زنجانی ص۴۴۔)
۲۔ اہل سنت کے مشہور مولف حاکم نے کتاب مستدرک میں زید بن ثابت سے نقل کیا ہے :
ہم پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں قرآن کے پراکندہ ٹکڑوں کوجمع کرتے تھے اور ہر ایک کو نبی اکرم ﷺ کی راہنمائی کے مطابق اس کے مناسب محل و مقام پر رکھتے تھے لیکن پھر بھی یہ تحریریں متفرق تھیں چنانچہ پیغمبراکرم ﷺ نے علی)علیہ السلام( کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک جگہ جمع کریں، (اس جمع آوری کے بعد) اب آپ ہمیں اسے ضائع کرنے سے ڈراتے تھے۔
۳۔ اہل تشیع کے بہت بڑے عالم سید مرتضی کہتے ہیں :
قرآن رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اسی حالت میں اسی موجودہ صورت میں جمع ہوچکا تھا۔(بحوالہ: مجمع البیان، جلد اول ص۱۵۔)
۴ ۔طبرانی اورابن عساکر نے شعبی سے یوں نقل کیا ہے :
انصار میں سے چھ افراد نے قرآن کو پیغمبر ﷺ کے زمانے میں جمع کیا تھا۔ (بحوالہ: منتخب کنزالعمال جلد دوم ص۵۲۔)
۵۔ قتادہ ناقل ہیں :
میں نے انس سے سوال کیا کہ پیغمبر ﷺ کے زمانے میں کس شخص نے قرآن جمع کیا تھا۔ اس نے کہا چار افرا د نے جو سب کے سب انصار میں سے تھے۔ ابی بن کعب، معاذ ، زید بن ثابت اور ابوزید۔(بحوالہ: صحیح بخاری جلد۶ ص۱۰۔)
ان کے علاوہ بھی روایات ہیں جن کا ذکر کرنا طول کا باعث ہوگا۔ بہرحال یہ احادیث جو شیعہ وسنی کتب میں موجود ہیں ان سے قطع نظر اس سورہ کے لئے فاتحة الکتاب نام کا انتخاب اس موضوع کے اثبات کا زندہ ثبوت ہے۔