Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔ آیت میں ”اَم“ کا معنی:

										
																									
								

Ayat No : 12-14

: هود

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَنْ يَقُولُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنْتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ۱۲أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۱۳فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۱۴

Translation

پس کیا تم ہماری وحی کے بعض حصوں کو اس لئے ترک کرنے والے ہو یا اس سے تمہارا سینہ اس لئے تنگ ہوا ہے کہ یہ لوگ کہیں گے کہ ان کے اوپر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا ان کے ساتھ َمُلک کیوں نہیں آیا ...تو آپ صرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر شئے کا نگراں اور ذمہ دار ہے. کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورہ گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو. پھر اگر یہ آپ کی بات قبول نہ کریں تو تم سب سمجھ لو کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب خدا کے علم سے ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو کیا اب تم اسلام لانے والے ہو.

Tafseer

									زیرِ نظر دوسری آیت ”اَم یقولون افتراہ....“ کی ابتداء میں لفظ ”اَم“ کے بارے میں دواحتمالات ذکر کئے ہی، ایک یہ کہ یہ ”او“ (یا) کے معنی میں ہے اور دوسرا یہ کہ یہ ”بل“ کے معنی میں ہے ۔
پہلی صورت میں آیت کا معنیٰ یہ ہوگا: شاید تو نے ہماری آیات کو مخالفین کی بہانہ سازیوں کے خوف سے انھیں نہیں سنایا ”یا یہ کہ“ تُونے تو آیات الٰہی پڑھی ہیں لیکن انھوں نے انھیں خداپر افتراء سمجھا ہے ۔
دوسری صورت میں آیت کا معنی اس طرح ہوگا: آیات الٰہی کی تبلیغ میں ان کی بہانہ سازیوں کی وجہ سے تاخیر نہ کرو۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ یہ لوگ تو بنیادی طور پر وحی اور نبوت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے خدا پر افتراء باندھا ہے ۔
درحقیقت اس بیان کے ذریعے خدا اپنے پیغمبر کو خبر دیتا ہے کہ من پسند کے معجزات کے بارے میں ان کے تقاضے تلاشِ حقیقت کی بناپر نہیں بلکہ اس لئے ہیں کہ وہ اصولی طور پر نبوّت کے منکر ہیں اور یہ سب ان کے بہانے ہیں ۔
بہرحال مندرجہ بالا آیات کے مفہوم میں غور وخوض سے اور خصوصاًادبی لحاظ سے ان کے الفاظ دقتِ نظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرا معنی آیات کے مفہوم سے زیادہ نزدیک ہے (غور کیجئے گا) ۔