۲۔ آیات الٰہی کی تبلیغ میں تاخیر؟
فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَنْ يَقُولُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنْتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ۱۲أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ۱۳فَإِلَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا أُنْزِلَ بِعِلْمِ اللَّهِ وَأَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۱۴
پس کیا تم ہماری وحی کے بعض حصوں کو اس لئے ترک کرنے والے ہو یا اس سے تمہارا سینہ اس لئے تنگ ہوا ہے کہ یہ لوگ کہیں گے کہ ان کے اوپر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوا یا ان کے ساتھ َمُلک کیوں نہیں آیا ...تو آپ صرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر شئے کا نگراں اور ذمہ دار ہے. کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورہ گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو. پھر اگر یہ آپ کی بات قبول نہ کریں تو تم سب سمجھ لو کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے سب خدا کے علم سے ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو کیا اب تم اسلام لانے والے ہو.
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ پیغمبر آیات الٰہی کی تبلیغ میں تاخیر کریں یا ان کی تبلیغ سے بالکل ہی رُک جائیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ نبی سے کوئی گناہ یا خطا سرزد نہیںہوسکتی ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت پیغمبر کسی حکم کی فوری تبلیغ پر مامور ہوں تو یقیناً بغیر کسی شک وشبہ کے وہ اس کی تبلیغ کریں گے لیکن کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ تبلیغ کا وقت وسیع ہوتا ہے اور پیغمبر بعض وجوہات کے پیش نظر جو خود ا ن کی اپنی طرف سے نہیں ہوتیں بلکہ مکتب کے دفاع کی اور حمایت ہی کے حوالے سے ہوتی ہیں ان کی تبلیغ میں تاخیر کردیتے ہیں، مسلّم ہے کہ یہ گناہ نہیں جیسا کہ اس کی نظیر سورہٴ مائدہ کی آیت ۶۷ میں ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کو تاکید کرتا ہے کہ آیاتِ الٰہی کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو دھمکیوں سے نہ ڈریں اور خدا ان کی حفاظت کرے گا، قرآن کے الفاظ ہیں:
<یَااٴَیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
درحقیقت یہاں تبلیغ میں تاخیر ممنوع نہ تھی، تاہم قاطعیت کے اظہار کے طور پر اس میں جلدی کرنا بہتر تھا، اس طریقے سے خدا اپنے پیغمبر کی نفسیاتی حوالے سے تقویت چاہتا ہے اور مخالفین کے سامنے ان کی قاطعیت اور اٹل فیصلے کو استقامت دینا چاہتا ہے تاکہ وہ ان کے شور وشرابے، بے بنیاد تقاضوں، بہانہ سازیوں اور تمسخر سے پریشان نہ ہوں ۔