Tafseer e Namoona

Topic

											

									  انبیاء کا چشمہٴ عصمت

										
																									
								

Ayat No : 113

: النساء

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِنْ شَيْءٍ ۚ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ۱۱۳

Translation

اگر آپ پر فضل خدا اور رحمت پروردگار کا سایہ نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کوبہکانے کا ارادہ کرلیا تھا اور یہ اپنے علاوہ کسی کو گمراہ نہیں کرسکتے اور آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاسکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور آپ کو ان تمام باتوں کا علم دے دیا ہے جن کا علم نہ تھا اور آپ پر خدا کا بہت بڑا فضل ہے.

Tafseer

									مندرجہ بالاآیت ان آیات میں سے ہے جو نبی کے خطا ، اشتباہ اور گناہ سے محفوظ ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں ارشاد ہوتا ہے : اگر خدا کی امداد تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو وہ تمہیں گمراہ کردیتے لیکن امداد الہٰی کی وجہ سے وہ تمہیں گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور اس سلسلے میں تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ 
اس طرح سے در اصل خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو خطا اور گناہ سے محفوظ رکھا ہے تاکہ : 
.....پیغمبر امت کے لئے نمونہ عمل بن سکے او رنیکیوں اور بھلائیوں کے لئے امت کے واسطے ایک معیار قرار پا سکے ۔ 
..... ایک عظیم رہبر کی حیثیت سے لغزشوں کے المناک انجام اور نتیجے سے محفوظ رہ سکے ۔ یوں امت بھی اطاعتِ پیغمبر میں سر گردانی سے مامون رہے اور اطاعت و عدم اطاعت کے تضاد کا شکار نہ ہوجائے۔
..... لوگوں کو پیغمبر پر کامل اعتماد ہو سکے کیونکہ کامل اعتماد خدائی رہبری کی پہلی شرط ہے ۔ 
آیت میں مسئلہ عصمت کی ایک بنیادی دلیل اجمالی طور پر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے پیغمبر کو علوم تعلیم فرمائے جن کی وجہ سے وہ گناہ اور خطا سے بالکل مامون و محفوظ ہوگئے ہیں کیونکہ علم و دانش ( جب اپنے آخری مرحلے کو پہنچ جائے تو) موجب عصمت ہوتا ہے ، مثلاً ایک ڈاکٹر ایسے پانی کو ہرگز نہیں پی سکتا جس میں ملیریا او ردیگر بیسیوں بیماریوں کے جراثیم موجود ہوں اور جنھیں وہ خود لیبارٹری میں دیکھ چکا ہو او ران کے ہولناک اثرات سے بھی آگاہ ہو یعنی اس کا علم اسے ایسا عمل کرنے سے روکتا ہے جبکہ جہالت میں ممکن ہے وہ ایسا کام کرجاتا۔ اس بنا پر جو شخص وحی الہٰی اور پروردگا رکی تعلیم کے ذریعے مختلف مسائل کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتا ہو وہ لغزش و اشتباہ کا شکار ہو تا ہے نہ گمراہی و گناہ میں پڑتا ہے.....یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئیے کہ پیغمبرگناہ نہ کرنے پر مجبور ہے بلکہ پیغمبر کو خدا کی طرف سے علم تو ہوتا ہے لیکن وہ اس سے مجبور نہیں ہو جاتا ۔ یعنی پیغمبر کبھی اپنے علم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں ہوتا بلکہ اپنے اختیار سے اس علم پر عمل کرتا ہے جیسے مذکورہ مثال میں ڈاکٹر اس آلودہ پانی کی کیفیت سے آگاہی کے باوجود اسے نہ پینے پر مجبورنہیں ہے بلکہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے اسے نہیں پیتا۔ 
اور اگر کہاجائے کہ پیغمبر کے لئے یہ فضل الہٰی کیوں ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا رہبری کی اہم اور بھاری ذمہ داری کی بنا پر ہے جو ان کے کندھے پر رکھی گئی ہے اور دوسروں کے دوسش پر نہیں ہے کیونکہ خدا جتنی کسی پر مسٴولیت اور ذمہ داری ڈالتا ہے اتنی ہی اسے توانائی اور قدرت عطا کرتا ہے

( غور کیجئے گا) ۔


۱۱۴۔ لا خَیْرَ فی کَثیرٍ مِنْ نَجْواہُمْ إِلاَّ مَنْ اٴَمَرَ بِصَدَقَةٍ اٴَوْ مَعْرُوفٍ اٴَوْ إِصْلاحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَ مَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ ابْتِغاء َ مَرْضاتِ اللَّہِ فَسَوْفَ نُؤْتیہِ اٴَجْراً عَظیماً ۔
تر جمہ 
۱۱۴۔ ان کی بہت سی سر گوشیوں ( اور خفیہ میٹنگوں ) میں خیر و سود مندی نہیں مگر یہ کہ کوئی شخص( اس طریقے سے ) دوسروں کی مدد، کوئی نیک کام یا لوگوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کرے اور جو شخص رضائے الہٰی کے لئے یہ سب کچھ کرے تو اسے ہم عظیم اجر دیں گے ۔ 
تفسیر