اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو
وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا ۱۱۰وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ۱۱۱وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ۱۱۲
اور جو بھی کسی کے ساتھ برائی کرے گا یا اپنے نفس پر ظلم کرے گا اس کے بعد استغفار کرے گا تو خدا کو غفور اور رحیم پائے گا. اور جو قصدا گناہ کرتا ہے وہ اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور خدا سب کا جاننے والا ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے. اور جو شخص بھی کوئی غلطی یا گناہ کرکے دوسرے بے گناہ کے سر ڈال دیتا ہے وہ بہت بڑے بہتان اور کِھلے گناہ کا ذمہ دار ہوتا ہے.
یہ آیت بنی ابیرق کے حادثہ کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ قبل کی چند آیات کی شان نزول میں اس کی نشاندہی کی جاچکی ہے ۔
آیت کہتی ہے : اگر خدا کا فضل و رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتا تو ( منافقین یا ان جیسے ) بعض لوگ مصمم ارادہ کرچکے تھے کہ تمہیں راہِ حق و عدالت سے منحرف کردیں لیکن لطفِ الہٰی تمہارے شامل حال رہا او راس نے تمہاری حفاظت کی ( ولولا فضل اللہ علیک و رحمتہ لھمت طائفة منھم ای یضلوک) ۔
وہ چاہتے تھے کہ ایک بے گناہ شخص پر تہمت لگائیں او رپھر پیغمبر کو اس واقعے میں ملوث کریں تاکہ اس طرح ایک پیغمبر اکرم کی اجتماعی اور معنوی حیثیت کو نقصان پہنچے اور دوسرا ایک بے گناہ مسلمان کے ذریعے اپنی بڑی اغراض پوری کرسکیں ۔ لیکن وہ خدا جو اپنے پیغمبر کا محافظ ہے اس نے ان کے منصوبوں کو نقش بر آب کردیا ۔
بعض نے اس آیت کی ایک اور شانِ نزول بھی ذکر کی ہے ، وہ یہ ہے کہ :
قبیلہ بنی ثقیف کا یک وفد پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا او ر کہنے لگا: ہم دو شرطوں کے ساتھ آپ کی بیعت کے لئے تیار ہیں پہلی یہ کہ ہم اپنے بت اپنے ہاتھ سے نہیں توڑیں گے اور دوسری یہ کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم مزید ایک سال تک عزیٰ بت کی پر ستش کرتے رہیں ۔
خد اتعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان تجاویز کے لئے کوئی میلان ظاہر نہ کریں ۔
اسی ضمن میں مندرجہ بالا آیت نازل ہو ئی جس میں پیغمبر اکرم سے کہا گیا کہ لطف ِ خدا آپ کو ان وسوسوں سے محفوظ کھے گا۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے : یہ لوگ صرف اپنے آپ کو گمراہ کرتے ہیں اور آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ( وما یضلون الا انفسھم و ما یضرونک من شیء) ۔
آخر میں گمراہی ، خطا اور گناہ سے پیغمبر کے محفوظ رہنے اور پیغمبر کی معنویت کی علت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : آپ پر خدا نے کتاب و حکمت نازل کی او رجو آپ نہیں جانتے تھے آپ کو اس کی تعلیم دی ( وانزل اللہ علیک الکتاب و الحکمة و علمک مالم تکن تعلم ) ۔
بعد از اں فرماتا ہے : آپ پر اللہ کا بہت ہی زیادہ فضل و کرم تھا ( وکان فضل اللہ علیک عظیماً)