تفسیر
وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ۱۰۴
اور خبردار دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی سے کام نہ لینا کہ اگر تمہیں کوئی بھی رنج پہنچتا ہے تو تمہاری طرح کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے اور تم اللہ سے وہ امیدیں رکھتے ہو جو انہیں حاصل نہیں ہیں اور اللہ ہر ایک کی نیت کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے.
تفسیر
جہاد اور ہجرت سےمتعلق آیات کے بعد زیر نظر آیت میں مسلمانوں میں وفاداری کی روح بیدار کرنے کے لیے کہا گیا ہے:دشمن کا تعاقب کرنے میں سستی نہ کرو (ولا تهنوا في ابتغاء
القوم ) ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ کبھی بھی سخت ترین دشمن کے مقابلے میں دفاعی حالات کو نہ اپناؤ بلکہ ہمیشہ اس قسم کے افراد کے مقابلے میں یورش کرکے اور بڑھ کر حملا کر کے اپنی
حفاظت کرو کیونکہ نفسیاتی طور پر یہ حربہ دشمن کے حوصلے پست کرنے کے لیے بہت موثر ہے جس طرح کے واقع میں شدید شکست کے بعد اس روش پرچل کر فائدہ اٹھایا گیا وہ دشمنان اسلام
جنھوں نے جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد میدان جنگ چھوڑ دیا اور راستے میں میدان جنگ کی طرف پلٹنے کی تونگر ان میں پیدا ہوئی وہ ان کے دماغ سے نکل گئی اور وہ بڑی تیزی کے ساتھ مدنیہ
سے دور کا ہٹ گئے۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے ایک زندہ اور واضح استدلال اس حکم کے لیے بیان کرتے ہوئے فرمایا: تم کیوں کاہل بنتے ہو حالانکہ اگر تم میدان جهادی در دور رنج میں گرفتار ہوئے ہو تو
تمھارے دشمنن بھی پریشانیوں میں مبتلا تھے لیکن اس میں فرق یہ ہے کہ تمھیں تو پھربھی پروردگار عالم کی زیادہ سے زیاده مدد ورحمت کی امید تھی لیکن وہ تو اس امید سے بھی محروم تھے (ان
تكونوا تألمون فانهم يالمون كما تألمون وترجون من الله ما لايرجون ) اورآخرمیں زیادہ تاکید کے لیے فرماتا ہے:
یہ بات نہ بھولنا کی تمھاری یہ تمام پریشانیاں ، تکلیفیں ، زحمتیں اور بعض اوقات کاہلی اور چشم پوشی خدا کی نظر سے مخفی نہیں (وكان الله علیم!احکیم!ا) لہذا ان سب کا نتیجہہ تم
دیکھ لوگے ۔