شان نزول
وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِنْ تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ۱۰۴
اور خبردار دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی سے کام نہ لینا کہ اگر تمہیں کوئی بھی رنج پہنچتا ہے تو تمہاری طرح کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے اور تم اللہ سے وہ امیدیں رکھتے ہو جو انہیں حاصل نہیں ہیں اور اللہ ہر ایک کی نیت کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے.
شان نزول
ہرہتھیار کے مقابلے میں اس جیسا ہتھیار
ابن عباس اور کچھ دوسرے مفسرین نے نقل کیا ہے کی جنگ احد کے دردناک حوادث کے بعد پیغمبراکرمؐ کوہ احد کی چوٹی پر تشریف لے گئے اور ابوسفیان بھی پہاڑ پر چڑھ گیا اور
فاتحانہ لہجے میں پکار کر کہنے لگا "اے محمد! ایک دن ہم کامیاب ہوئے اور دوسرے دن تم۔ یعنی ہماری یہ کامیابی اسی شکست کے مقابلہ میں ہے جو ہمیں جنگ بدر میں ہوئی تھی۔ پیغمبراکرمؐ نے
مسلمانوں سے فرمایا : فور اسے جواب دو (گویا ابوسفیان پر آپ ثابت کررہے تھے کہ میرے مکتب میں تربیت پانے والے بہت باخبر و آگاه ہیں) مسلمانوں نے کہا ہماری اور تمھاری کیفیت ہرگز ایک
جیسی نہیں ہے ہمارے شہید بہشت میں ہیں جبکہ تمھارے مقتول جہنم میں ہیں۔ ابوسفیان نے پکارکریہ جملہ فخریہ نعرے کے طور پر کہا۔
"لنا العزی و لاغری لکم"
"ہم بہت بڑا "عزیٰ" بت رکھتے ہیں اور تمھارے پاس وہ بھی نہیں"۔
پیغمبراکرمؐ نے فرمایا تم بھی اس کے جواب میں کہو۔
"الله مولٰنا ولا مولٰى لكم"
ہمارا ولی اور سرپرست خدا ہے اور ہمارا تکیہ خدا پر ہے اور تمھاری کوئی سر پرست نہیں ، تمہاری کوئی تکیہ گاہ نہیں۔
ابوسفیان نے جب اپنے آپ کو اس زنده اسلامی شعار کے مقابلے میں بےبس اور کمزور پایا تو بت "عزیٰ" کو چھوڑ کر بت "ہبل" کے دامن کو جا پڑا اور پکارا۔
"اعل هبل"
"ہبل سر بلند ہو"
پیغمبر نے حکم دیا کہ اس جاہلانہ شعار کو مضبوط اور پختہ شعار کے ساتھ شکست دو اور کہو۔
"الله اعلي في اجل"/
"خدا برتر و بالاتر ہے"
ابوسفیان کو جب اپنے ان مختلف شعار سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو اس نے پکار کر کہا ہماری وعدہ گاہ "بدرخضریٰ" ہے۔
مسلمان میدان جنگ سے بہت سے زخم لے کر پلٹے وہ احد کے دردناک حوادث پر بہت دکھی تھے اسی وقت اوپروالی آیت نازل ہوئی جس میں انھیں بیدار کیا گیا کہ وہ مشرکین کا تعاقب
کرنےمیں کوتاہی نہ کریں اور اس دردناک واقعہ سے پریشان نہ ہوں۔ مسلمان اسی حالت میں دشمن کو پیچھا کرنے اٹھ کھڑے ہوئے اور جب اس کی اطلاع مشرکین کو پہنچی تو وہ بڑی تیزی کے ساتھ
مدینہ سے دور نکل گئے اورمکہ کی طرف پلٹ گئے ۔ ؎1
یہ شان نزول ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دشمن کی کسی تکنیک سے بے خبرنہ ہوں اور ان کی جنگ کے ہر ذریعہ کے مقابل چا ہے وہ جسمانی جنگ ہو یا نفسیاتی
اس سے زیادہ مضبوط اور غلبہ پانے والا ذریعہ اپنائیں۔ دشمنوں کی منطق کے مقابلے میں زیاده ٹھوس منطق اور ان کے ہتھیار کے مقابل میں بہتر ہتھیاراستعمال کریں ۔ یہاں تک کہ ان کے نعرے کے
مقابلے زیاده زوردار نعرہ اپنائیں ورنہ واقعات دشمن کے فائدہ میں چلے جائیں گے۔
لہذا ہمارے زمانے میں مسلمانوں کو دردناک حوادث اوروحشت ناک مفاسد نے گھیر رکھا ہے بجائے اس کے کہ افسوس کرتے رہیں فعالیت سے کام لیں غلط کتابوں اور مطبوعات کے
مقابلے میں صحیح کتب اور معلومات فراہم کریں ۔ دشمنوں کے پراپیگنڈه کے جدید ذرائع کے مقابلے میں آج کے جدید ترین تبلیغاتی وسائل کو کام میں لائیں اورغلط مرکز کے مقابلے تفریع کے صحیح
ذریعے نوجوانوں کے لیے قائم کریں اور ان کے منصوبوں ،سازشوں اور حیلوں کے مقابلے میں موجودہ زمانے کی مناسبت سے جامع اسلامی منصوبے پیش کریں جو مختلف سیاسی ، اقتصادی اور
اجتماعی نظریات رکھنے والوں کا مقابلہ کرسکیں ۔ صرف انھی طریقوں سے ہم اپنے وجود کا تحفظ کرسکتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم قیادت کرنے والے طبقہ کی حیثیت سے آج کی دنیا میں آگے
بڑھیں۔
۔----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 تبیان جلد سوم صفحہ 314 ، مجمع البیان جلد سوم صفحہ 105