ایک سوال اور اس کا جواب
فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنْتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ۱۰۳
اس کے بعد جب یہ نماز تمام ہوجائے تو کھڑے, بیٹھے, لیٹے ہمیشہ خدا کو یاد کرتے رہو اور جب اطمینان حاصل ہوجائے تو باقاعدہ نماز قائم کرو کہ نماز صاحبانِ ایمان کے لئے ایک وقت معین کے ساتھ فریضہ ہے.
ایک سوال اور اس کا جواب
بعض مفسرین کہتے ہیں ہم نمازکے فلسفہ ، اہمیت اور اس کے تربیتی اثرات کے منکر نہیں ہیں لیکن کیا ضروری ہے کہ معین اوقات ہی میں اسے ادا کیا جائے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے ۔ ہر شخص فرصت اور روحانی آمادگی کیوقت
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
؎1 ان روایات پر مطلع ہونے کے لیے نورالثقلین جلد اول صفحہ 545 کی طرف رجوع کریں.
؎2 کنزالعرفان جلد اول ص 59 میں اس معنی کی تائید کی گئی ہے اور تبیان اور مجمع البیان میں ایک قول کے عنوان سے اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔
۔---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ ذمہ داری ادا کرے۔
تجربہ شاہد ہے کہ تربیتی مسائل اگر انضباط اور معين شرائط کے ماتحت نہ رکھے جائیں تو کچھ لوگ انھیں فراموش کر دیتے ہیں اور ان کی بنیاد اور اساس منتزلزل ہوجاتی ہے لہذا اس قسم کے مسائل میں یقینًا معین اوقات اورسخت انضباط رکھا جانا چاہیے تاکہ کوئی شخص بھی انھیں ترک کرنے میں کوئی عذر اور بہانہ کرسکے خصوصی طور پر ان عبادات کا معتین اوقات میں سرانجامپانا اور خاص طور پر اجتماعی شکل میں ایک شکوه اور عظمت کا حامل ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور حقیقت میں یہ چیز انسان سازی کے لیے ایک
اہم درس اور تکنیک ہے۔