دوستان بهشتى
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ۶۹
اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیائً صدیقین, شہدائ اور صالحین اور یہی بہترین رفقائ ہیں.
تفسیر:
جنت کے ساتھی:
اس آیت میں ان لوگوں کا ایک اور افتخار و اعزاز بیان کیا گیا ہے جو خدا وند عالم اور اس کے رسول کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور حقیقت میں ان خصوصیات و امتیازات کی تکمیل کرتا ہے جن کا ذکر گزشتہ آیتوں میں ہو چکا ہے۔
(وَمَنْ يُّطِعِ اللّـٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمَ اللّـٰهُ عَلَيْـهِـمْ۔۔۔۔۔۔)
جیسا کہ سورہ الحمد کی تفسیر میں بیان ہو چکا ہےکہ جو لوگ اس نعمت کے حامل ہیں وہ ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں اور کم سے کم گمراہی اور روگردانی بھی نہیں کرتے۔ اس کے بعد خداوند عالم نے اس جملہ کی وضاحت اور ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جن پر اس نے اپنی نعمت کی تکمیل فرمائی ہے
چار قسم کے لوگوں کی طرم اشارہ کیا ہے جو حقیقتا اس موضوع کے چار رکن ہیں۔
1- خدا کے مخصوص بھیجے ہوئے انبیاء جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کے لیے صراط مستقیم کی طرف سب سے پہلے اپنا قدم بڑھاتے ہیں (من النبیین)۔
2- "سچ بولنے والے" وہ لوگ جو بات کے سچے ہوتے ہیں اور اپنے عمل اور کردار سے اپنی بات کی سچائی کو ثابت بھی کرتے ہیں اور اس امر کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ ایمان کے دعویٰ دار ہی نہیں ہیں بلکہ واقعی خدا کے احکام پر ایمان بھی رکھتے ہیں (الصدیقین)۔
اس تعبیر سے واضح ہوتا ہے کہ مقام نبوت کے بعد صدق و راست گوئی سے بڑھ کر کوئی مقام نہیں ہے صرف گفتار کی سچائی نہیں بلکہ عمل و کردار کی پاکبازی بھی جس میں امانت و اخلاص بھی شامل ہیں کیونکہ امانت دراصل عمل میں صداقت کا دوسرا نام ہے جیسا کہ راست گوئی گفتار میں امانت ہے
اسی طرح کوئی برائی کفر کے بعد جھوٹ، نفاق اور سخن و عمل میں خیانت سے بدتر نہیں ہے ( یاد رکھیے کہ صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں سراپا راستی اور درستی)۔ بعض روایتوں میں صدیق سے حضرت امیر المومنین اور ائمہ اہل بیت علیہ السام مراد لیے گئے ہیں جیسا کہ ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ اس قسم کی تفسیر آیات کے روشن
اور عالی مصادیق بیان کرتی ہے نہ کہ آیت کا مفہوم اس میں منحصر ہے
3- "شہدا" پاکیزہ الٰہی عقیدہ اور مقصد کی راہ میں قتل ہونے والے یا منتخب نیک لوگ جو قیامت کے دن انسانوں کے اعمال پر گواہ ہوںگے (الشہداء)۔
4- "صالحین" علم و عمل کے ٓلحاظ سے لائق اور شائستہ افراد جو مثبت اصلاحی اور مفید کام کرنے کی وجہ سے اور انبیاء کے احکام کی پیروی کر کے بلند مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں (والصالحین)۔
اسی بنا پر شیعہ روایات میں لفظ صالحین کی تفسیر ائمہ معصومین کے برگزیدہ اصحاب کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ بھی جیسا کہ "صدیقین" کے بارے میں گزر چکا ہے نیک اور لائق افراد کی ایک مثال ہیں۔ جس نکتے کو اس مقام پر یاد دلانا ضروری ہے
وہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان چاروں مرحلوں کا ذکر اس معنی کی طرف اشارہ ہو کہ ایک صحیح و سالم اور شائستہ انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے رہبران حق اور انبیاء میدان عمل میں آئیں اور ان کے چھپے سچے مبلغجن کا قول و عمل ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور اپنے مقاصد کی ہر جگہ نشر و اشاعت کریں۔
اس فکری اصلاح کے دور کے بعد ایک گروہ پر سے لوگوں خصوصا ان لوگوں کے مقابلے کے لیے نکلے جو خدا کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ گروہ راہ حق میں قربانی دے اور شہادت پیش کرے۔ انہی کی کوششوں اور جدوجہد کے نتیجہ میں صالحین اور پاک و شائستہ افراد پر مشتمل معاشرہ پیدا ہوتا ہے۔ واضح ہے کہ صالحین بھی آئندہ نسلوں کے لیے مشعل حق روشن رکھنے کے لیے یہ تینوں فرائض انجام دیں گے رہبری اور تبلیغ کریں گے نیز قربانی دیں گے۔
ان آیتوں سے ضمنی طور پر یہ حقیقت بھی خوب واضح ہوتی ہے کہ اچھی معاشرت رکھنے والے بے مثل ساتھی اس قدر اہم ہیں کہ عالم آخرت میں بھی جنت کی نعمتوں کی تکمیل کے لیے اطاعت گزاروں کو اس عظیم نعمت سے نوازا جائے گا دوسرے افتخارات اور اعزازات کے علاوہ وہ انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کی رفاقت بھی حاصل کریں گے۔
اطاعت گزاروں کے ان چاروں گروہوں سے میل و جول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مقام و مرتبہ میں ان کے برابر ہوں گے بلکہ ایک دوسرے سے معاشرت رکھنے کے باوجود ان میں سے ہر ایک اپنے مرتبہ کے مطابق خداوند عالم کے فضل و کرم کا مستحق ہوگا جیسے درختم پھول اور سبزہ اگرچہ ایک دوسرے کے آس پاس ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی اور پارش سے فیض یاب ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا مستفید ہونا ان کی قدر و قیمت اور استعداد کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوتا۔
آیت میں اس امتیاز عظیم ( منتخب افراد کی ہم نشینی) کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: یہ خداوندعالم کا خاص فضل و کرم ہے اور وہ بندوں کی حالتوں، نیتوں، لیاقتوں اور قابلیتوں سے خوب آگاہ ہے (ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّـٰهِ ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ عَلِيْمًا) البتہ "ذٰلک" جو بعید کا اسم اشارہ ہے اس قسم کے مقامات پر اہمیت اور مرتبہ کی بلندی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ہم آیت مندرجہ بالا سے نیک جال سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ سپاس بے قیاس اس پروردگار کے لیے ہے کہ باوجود ان تمام رکاوٹوں کے جو نیک کام کرنے والوں کے راستہ میں حائل ہوا کرتی ہیں، خاص لطف الٰہی سے تفسیر نمومہ کی تیسری جلد بائین احسن اس مقام اختتام کو پہنچ گئی ہے۔
ذلک الفضل من اللہ وکفیٰ باللہ علیما۔
خدایا بطفیل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری نیتوں کو پاک اور ہمارے اعمال کو پر خلوص بنا دے۔
تفسیر نمونہ جلد سوئم ختم ہوئی۔