شأن نزول
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ۶۹
اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیائً صدیقین, شہدائ اور صالحین اور یہی بہترین رفقائ ہیں.
شانِ نزول:
ثوبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک صحابی تھا وہ حضور سے بہت الفت و محبت رکھتا تھا۔ ایک دن نہایت پریشانی کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے پریشانی کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا کہ جب میں آپ سے جدا ہوتا ہوں اور آپ کو نہیں دیکھتا تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ آج میں اس فکر میں غوطہ زن تھا کہ کل قیامت کے دن اگر میں اہل بہشت میں سے ہوا تو یہ مسلم ہے کہ میں
آپ کے درجے میں تو نہیں ہوں گا اس وجہ سے آپ کو تو کبھی نہ دیکھ سکوں گا اور اگر اہل جنت میں سے نہ ہوا تو پھر بھی زیارت سے محروم رہوںگا بنا بریں ہر دو صورت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حضوری کے شرف سے مشرف نہ ہو سکوں گا۔ پھر ان حالات میں
میں کیسے پریشان نہ ہوں۔ اس وقت مندرجہ بالا آیت نازیل ہوئی اور ایسے لوگوں کو بشارت دی گئی کہ مطیع اور فرمانبردار افراد جنت میں بھی انبیاء اور بزرگان دین کے ساتھی ہوں گے۔ اس کے بعد حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم کسی مسلمان
کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک وہ مجھے اپنی ذات، ماں باپ اور تمام رشتہ داروں سے زیادہ دوست نہ رکھے اور میری بات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے۔