نتیجه داورى طاغوت
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا ۶۱فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا ۶۲أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا ۶۳
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ حکم خدا .... اور اس کے رسول کی طرف آؤ تو تم منافقین کو دیکھو گے کہ وہ شدّت سے انکار کردیتے ہیں. پس اس وقت کیا ہوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ہوگی اور وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا. یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل کا حال خدا خوب جانتا ہے لہذا آپ ان سے کنارہ کش رہیں انہیں نصیحت کریں اور ان کے دل پر اثر کرنے والی محل موقع کے مطابق بات کریں.
تفسیر
طاغوت کے فیصلے کا نتیجہ
طاغوت اور ظالم و جابر فیصلہ کرنے والوں کی طرف جانے سے منع کرنے کے بعد جس کا ذکرگذشتہ آیت میں آچکا ہے اب ان تین آیتوں میں اسی طرح کے فیصلوں کے نتیجے اور وہ حیلے جن سے منافق سہارا لیتے تھے، ان پر تحقیق اور بحث کی گئی ہے چنانچہ خداوند عالم پہلی آیت میں فرماتا ہے : اس قسم کے مسلمان نما لوگ نہ صرف یہ کہ اپنا فیصلہ قبول کروانے کے لیے طاغوت کے پاس جاتے ہیں کہ بلکہ جب انہیں یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ خدا کی طرف پلٹ آؤ اور پیغمبر کا فیصلہ قبول کرلو تو وہ پیغمبر کی دعوت سے ڈٹ کر روگردانی کرتے ہیں اور اس کام کو کرنے کے لیے اصرار کرتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے حقیقت میں ان کا طاغوت کی طرف لوٹنا وقتی اور ہنگامی نہیں تھا کہ اس کی یاد دہانی سے اصلاح ہوجاتی بلکہ ان کا مخالفت کرتا اور اس کام میں ڈٹ جانا ان میں روح نفاق کی کارفرمائی اور ایمان کی کمزوری پر روشنی ڈالتا ہے ورنہ وہ پیغمبر کی دعوت سے بیدار ہوجاتے اور اپنی غلطی مان لیتے (واذا قيل لهم تعالوالي ماانزلات واللہ والی الرسول رأيت المنافقين يصدون عنك صدودًا) -
اس کے بعد کی آیت میں انسانیت کو بیان کرتا ہے کہ یہی منافق افراد جب اپنے اعمال کے نتیجے میں کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور بچاؤ کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تو پھر بادل ناخواستہ آپ کے پاس آتے ہیں (فكيف اذا اصابتهم مصيبة بما قدمت ایدیھم ثم جاؤك).
پھراس موقع پرقسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا دوسروں کے پاس مقدمہ لے جانے سے مقصد نیکی کے سوا اور دعوی کرنے والوں کے درمیان موافقت اور صلح کروانے کے کچھ نہیں تھا (یحلفون بالله ان اردنا الا احسانًا و توفيقًا)۔
یہاں دونکتوں کی طرف توجہ رکھنا چاہیے۔
پہلا یہ کہ اس مصیبت سے کیا مراد ہے جو انہیں دامن گیر تھی ۔ کچھ بعید نہیں کہ اس سے مراد پریشانیاں ، بدبختیاں اور عام مصیبتیں ہوں جو طاغوت سے فیصلہ کروانے کے نتیجے میں انہیں پیش آتی تھیں کیونکہ اس میں شک نہیں کہ اگر برے اور ظالم لوگوں کے فیصلہ سے کوئی فوری فائدہ طرفین میں سے کسی کو ہوجائے تو زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ اس قسم کے فیصلوں کی بقا ظلم اور فساد پھیلنے کا سبب بن جاتی ہے اور اسی وجہ سے معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ غرض اس سے لوگ بہت جلد اپنے کاموں کے نتیجوں کو دیکھ لیتے ہیں اور اپنے کیے پر پچھتاتے ہیں۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ مصیبت سے مراد لوگوں میں منافقوں کی رسوائی اور ذلت ہے یا وہ مصائب ہیں جو خدا کے حکم سے آتے ہیں (مثلًا رنج و غم اور غیر متوقع نقصانات).
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کیا احسان اور نیکی کرنے سے منافقین کا مقصد طرفین دعوٰی کے ساتھ نیکی اور احسان ہے یا پیغمبراکرمؐ کے ساتھ حسن سلوک ممکن ہے کہ ان کی مراد یہ دونوں باتیں ہوں۔
انہوں نے غیروں کے پاس مقدمہ لے جانے کے مضحکہ خیز بہانے بنا رکھے تھے ۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ پیغمبرؐ کے پاس مقدمہ لے جانا آنحضرت کی شان کے خلاف ہے کیونکہ اکثر طرفین دعویٰ شور و غل مچاتے ہیں اور یہ چیز مقام پیغمبرؐ کے سراسر خلاف ہے۔ علاوہ ازیں فیصلہ ہمیشہ ایک طرف کے نقصان پر ہوتا ہے اور یہ فطری طور پرلوگوں کو دشمن بنانے کے مترادف ہے گویا وہ یہ حیلے بہانے کرکے اپنی پوزیشن صاف کرنا چاہتے تھے کہ ہمارا مقصد توصرف اور صرف پیغمبراکرمؐ کرنے کی اور طرفین دعوٰی کی خدمت تھی یا یہ کہ اصولی طورپر ہمارا نظریہ قضاوت نہ تھا بلکہ ہماری نظر تو طرفين نزاع میں صلح و صفائی پر تھی۔
لیکن خدا تیسری آیت میں ان کے چہروں سے نقاب اٹھا دیتا ہے اور اس قسم کے جھوٹے بہانوں کو باطل قرار دیتے ہو فرماتا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے دل کے بھیدوں کو خدا خوب جانتا ہے (اولئك الذين یعلم الله مافي قلوبهم) خداوند عالم اس کے باوجود پیغمبراکرمؐ کو حکم دیا ہے کہ انہیں سزا دینے سے چشم پوشی فرمایا (فاعرض عنھم)۔ اسی لیے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منافقین کے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر جہاں تک ممکن تھا نرمی فرماتے تھے کیونکہ آپؐ ظاہر پر مامور تھے اور انہیں غیرمعمولی جرم کے سوا سزا نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ ظاہری طور پرمسلمانوں کی صفوں میں دکھائی دیتے تھے اور ممکن تھا۔ کہ ان کو سزا ایک قسم کا انتقام سمجھی جائے۔ اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ انہیں وعظ نصحیت کیجئے اور عمدہ بیان سے ان کے دلوں پراثر ڈالیے اور ان کے اچھے اعمال کے خوشگوار نتائج ان کو بتائیے (وعظهم و قل لهم في انفسهم قولابليغا -