Tafseer e Namoona

Topic

											

									  خاندان کی مصالحتی عدالت

										
																									
								

Ayat No : 35

: النساء

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ۳۵

Translation

اور اگر دونوں کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک دَکُم مرد کی طرف سے اور ایک عورت والوں میں سے بھیجو- پھر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو خدا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کردے گا بیشک اللہ علیم بھی ہے اور خبیر بھی.

Tafseer

									  تفسیر
  خاندان کی مصالحتی عدالت
 وان خفتم شقاق بينهما........ 
 خداوند عالم اس آیت میں میاں بیوی کے درمیان اختلاف ونزع ہونے کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اگر میاں بیوی میں ناچاقی اور جدائی کی نشانیاں پیدا ہوجائیں تو 

ناچاقی کی وجوہات کو سمجھنے اورصلی وآتشی کے لیے ایک فیصلہ کرنے والا مرد کے خاندان سے اور دوسرا عورت کے خاندان سے چنو۔ اس کے بعد فرماتا ہے: ان یریدًا اصلاحا یوفق الله بينهما۔ اب 

اگر یہ دونوں فیصلہ کرنے والے نیک نیتی اور ہمدردی کے ساتھ یہ معاملہ طے کریں گے اور ان کا مقصد دونوں میاں بیوی میں صلح کرانا ہوگا تو خدا بهی مدد کرے گا ، ان کے ذریعے میاں بیوی کے 

درمیان الفت پیدا کر دے گا اور حکمین کو تنبیہ کرنے کے لیے تاکہ وہ نیک نیتی سے کام کریں اس آیت کے آخر میں فرماتا ہے : خدا ان کی نیت سے خوب آگاہ ہے (ان الله كان عليما خبيرا)۔
 خاندان کی مصالحتی عدالت جس کی طرف آیت میں اشارہ ہوا ہے اسلام کا ایک شاہکار ہے۔ اس عدالت کی کچھ ایسی خصوصیات ہیں جن سے باقی محکمے عاری ہیں ا۔ ن میں سے کچھ 

یہ ہیں:
  1-      خاندان کا ماحول احساس و محبت کا مرکز ہوتا ہے۔ فطری طور پر جوطریق کاراس ماحول میں اختیار کیا جائے وہ دوسری فضاؤں سے مختلف ہوناچاہیے یعنی جس طرح عام 

جرائم کی عدالتوں میں خشک ، ہمدردی اور مہربانی کے ساتھ کام نہیں چل سکتا، اسی طرح خاندانی ماحول میں خشک قانون بےروح رواج اور دستور سے گزارہ نہیں ہوتا ۔ یہاں جہاں تک ہوسکے 

اختلافات کو محبت اور مہربانی کے طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ اس لیے خدا وند عالم حکم دیتا ہے کہ اس محکمہ کے جج ایسے لوگ ہوں جو دونوں میاں بیوی کے رشتہ دار ہوں تاکہ وہ میاں بیوی 

کے احساسات محبت و مہربانی کو متحرک کرسکیں۔ واضح ہے کہ یہ خصوصیت صرف ایسی عدالت میں ہی ہوسکتی ہے باقی عدالتیں اس سے عاری ہیں۔ 
 2-     عام عدالتوں میں طرفین دعویٰ مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے دفاع کے لیے ہرقسم کے اسرار و رموز جو وہ جانتے ہیں خاش کريں . یہ بات مانی ہوئی ہے کہ اگر میاں بیوی بیگانوں 

کے سامنے اپنے ازدواجی راز فاش کریں تو ایک دوسرے کے جذبات ایسے مجروح کریں گے کہ اگر عدالت کے مجبور کرنے اپنے گھر واپس آجائیں پھر بھی پہلا سا خلوص و محبت ان میں باقی
نہ رہے گا اور ایک طرح کی ایسی بیگانگت پیدا ہو جائے گی جس میں مجبورًا اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نبھانی پڑیں ۔ اصولی طور پر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جو میاں بیوی ایک مرتبہ اس قسم کی 

عدالتوں میں چلے جاتے ہیں وہ پھر پہلے جیسے میاں بیوی نہیں رہتے۔ لیکن خاندان کی مصالحتی عدالت میں اول تو اس قسم کی شرمناک باتیں شرماحضوری نہیں کہی جاتیں ۔ ان کا ذکر آبھی جائے تو 

کیونکہ  دار اور محرم افراد سامنے ہوتے ہیں اس لیے اتنے برے اثرات کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ 
 3-     عام عدالتوں کے جج اختلافات کے بڑھنے کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ معاملہ چاہے کوئی صورت کیوں نہ اختیار کرے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان کی بلا سے میاں بیوی گھر 

لوٹ جائیں یا ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں لیکن و شاندانی مساعی عدالت میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ اس عدالت کے کے میاں بیوی کے نزدیکی بیشتر دار ہوتے ہیں۔ 

اسی لیے ان میاں بیوی کی مصالحت اور جدائی کا ان بچوں کی زندگی پر دلی رجحانات اور ان سے پیاو والے سوالات کی جواب دہی کے اندر سے گہرا اثر پڑتا ہے۔ اسی لیے وہ پوری پوری کوشش 

کرتے ہیں کہ کسی طرح ان دونوں میں مصلحت اور خلوص و محبت برقرار ہے اور وہ شیروشکر ہوجائیں۔ 
 4-    ان سب سے قطع نظر یہ مصالحتی عدالت کسی قسم کی مشکلات ، کمرتوڑ اور کثیر اخراجات اور عام عدالتوں کی سی پریشانیوں اور الجھنوں میں نہیں ڈالتی اور فریقین کو چکر 

پرچکر لگوائے بغیر تھوڑی سی مدت میں مقصد تک پہنچانے کی کوشش کرتی ہے۔ واضح ہے کہ دونوں خاندانوں میں حکمین تجربہ کار  مدبراور باخبر چننے چاہیں ۔ جو خصوصیات ہم نے گنوائی ہیں ان 

سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی عدالت میں میاں بیوی کی مصالحت کا موقع دوسری عدالتوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اور فقہ اسلامی میں مسئلہ حکمین کی شرطیں ان کے حکم اورفیصلہ اجرا اور دائرہ 

کار وغیرہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ ان میں سے یہ بھی ہے کہ دونوں فصل کرنے والے بالغ، عاقلي ، عادل اور اپنے کام میں دانا و بینا ہوں ۔باقی رہا ان کے فیصلہ کا میاں بیوی کے حق میں اجرا، تو 

بعض فقہا ان کا حکم جوبھی ہو اس کی تعمیل لازمی قرار دیتے ہیں اور اس آیت میں "حکم" کا ظاہری مفہوم بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ حکمیت اور داوری کا مفہوم حکم کا اجرا ہے۔ لیکن بہت و
سے فقہائے حکمین کے نظریہ کو صرف میاں بیوی میں صلح صفائی اور رفع اختلافات کی صورت میں قابل قبول قرار دیا ہے ۔ بلکہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ اگر میری بیوی یا شوہر پر کچھ شرطیں لگا 

دیں تو ان کی پابندی بھی ضروری ہے۔ البتہ جدائی اورعلیحدگی کی صورت میں ان کا حکم نافذ نہ ہوگا اور آیت کا ظاہری مفہوم جو اصلاح کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ اسی نظریہ کے ساتھ 

زیادہ مناسبت رکھتا اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لیے کتب فقہ ملاحظہ فرمایئے۔