ایک اشکال اور اس کی وضاحت
إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا ۳۱
اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے پرہیز کرلو گے تو ہم دوسرے گناہوں کی پردہ پوشی کردیں گے اور تمہیں باعزّت منزل تک پہنچادیں گے.
یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت تو گناہان صغیرہ کی تشویق دلاتی ہے کیونکہ وہ کہتی ہے : گناہان کبیرہ کو ترک کرنے کے بعد گناہان صغیرہ کونے میں کوئی حرج نہیں ۔
اس آیت میں جس تعبیر کا ذکر کیا گیا ہے اس سے اعتراض کا جواب بخوبی واضح ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن فرماتا ہے : فکفر عنکم سیئاتکم ( ہم تمہارے چھوٹے گناہوں کو چھپا دیں گے ) یعنی گناہان کبیرہ سے پر ہیز کرنا، خصوصاً بنیادیں مضبوط ہونے کی صورت میں انسان میں تقویٰ ایک ایسی حالت پید اکردیتا ہے جو ممکن ہے چھوٹے گناہوں کے اثرات کو اس کے وجود سے دھوڈالے ۔ اصل میں یہ آیت اس آیت کی طرح ہے :
ان الحسنات یذھبن السیئات ( ھود ،۱۴)
حسنات سیئات کو ختم کردیتے ہیں ۔
زیر نظر آیت میں حقیقی نیک اعمال کے حقیقی آثار کی طرف اشارہ ہے اور یہ بالکل اس طرح سے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ اگر انسا ن خطرناک زہریلے مواد سے پر ہیز کرے اور اس کی صحت بھی صحیح و سالم ہو تو صحت کی سلامتی کی وجہ سے بعض غیر مناسب غذاوٴں کے ناپسندیدہ اثرات ختم ہو سکتے ہیں
گناہ صغیرہ کس طرح کبیرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے
اس موقع پر ہمیں ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دینے چاہئیے اور وہ یہ ہے کہ گناہ صغیرہ اس صورت میں صغیرہ رہتا ہے جب اس میں تکرار نہ ہو علاوہ از ایں اسے معمولی سمجھتے ہوئے ، غرور اور سر کشی کے طور پر نہ کیا جائے کیونکہ قرآن اور اسلامی روایات کے مطابق یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اکثر مواقع پر گناہان صغیرہ ، گناہان کبیرہ میں بدل جاتے ہیں مثلاً
۱۔ جب انہیں بار بار کیا جائے ۔جیسا کہ حضرت امام جعفر صا دق (ع) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : لا صغیراة مع الاصرار ۔
۲۔ جب کسی گناہ کو چھوٹا معمولی سمجھا جائے ۔ چنانچہ نہج البلاغہ میں ہے : اشد الذنوب ما استھان بہ صاحبہ۔
سخت ترین گناہ وہ ہے جس کا کرنے والا اسے چھوٹا سمجھے۔ 1
جب گناہ طغیان ، تکبر اور حکم پروردگار کے سامنے سر کشی کے ارادے سے کیا جائے ۔ یہ بات مختلف آیتوں سے اجمالی طور پر معلوم ہو جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ سورہٴ النازعات کی آیت ۳۷ میں ہے :
رہے وہ لوگ جو سر کشی اور طغیان کریں ، بنیادی زندگی کو آخرت پر مقدم سمجھیں تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔
۴۔ وہ گناہ جو ایسے افرد سے سر زد ہوں جو معاشرے میں ایک خاص مقام رکھتے ہوں اور ان کی لغزش دوسروں کے برابر نہ سمجھی جاتی ہو۔ جیسے قرآن سورہٴ احزاب میں ازدواج پیغمبر کے بارے میں فرماتا ہے :
اگر تم کوئی بر اکام کردو گی تو اس کی سزا پاوٴ گی ۔
اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
من سبن سنة سیئة فعلیہ و زرھا و وزر من عمل بھا لا ینقص من اوزارھم شیئاً۔
اگر کوئی شخص بری سنت اور طریقے کی بنیاد رکھے تو اس کا گناہ اس پر ہوگا ۔ اسی طرح تمام لوگوں کا گناہ بھی جو اس پر عمل کریں گے اس کے بغیر کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔ 2
۵۔ جب اس گناہ کے کرنے پر خوش ہو اور اس پر فخر کرے ۔ جیسا کہ حضرت پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے :
من اذنب ذنبا وھو ضاحک دخل النار وھو باک
جو شخص گناہ کرے اور پھر اس پر ہنسے تو وہ روتے ہوئے جہنم کی آگ میں داخل ہوگا ۔
۶۔ گناہ کے بعد فوراً سزا ملنے کو رضا ئے الہٰی کی دلیل سمجھے اور اپنے آپ کو سزا سے محفوظ اور بار گاہ الہٰی میں محبوب قرار دے جیسا کہ قرآن مجید کی سورہٴ مجادلہ آیت ۸ میں ہے :
(مغرور گناہگار ) اپنی طرف سے کہیں گے کہ خدا ہمیں کیوں سزا نہیں دیتا۔
اس کے بعد قرآن مزید فرماتا ہے :
ان کے لئے دوزخ کی آگ کافی ہے ۔
۳۲۔وَ لا تَتَمَنَّوْا ما فَضَّلَ اللَّہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلی بَعْضٍ لِلرِّجالِ نَصیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَ لِلنِّساء ِ نَصیبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ وَ سْئَلُوا اللَّہَ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّ اللَّہَ کانَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلیماً ۔
ترجمہ
۳۲۔ جو فضیلت خدا نے تم سے بعض کو ب(ع)ض پر دی ہے اس کی تمنا اور آرزو نہ کرو ۔ (یہ طبعی فرق تمہارے معاشرے کے نظام کی حفاظت کے لئے ، حقوق اور عدالت کے عین مطابق ہے ۔ لیکن اس کے باوجودد ، مرد اس سے جو کسب و کوشش کرتے ہیں حصہ پالیتے ہیں اور عورتیں جو کسب اور کو شش کرتی ہیں اس میں حصہ حاصل کرتی ہیں ۔ ( کسی کے حقوق پامال نہیں ہونے چاہئیں ) اور خدا سے اس کے فضل ( اور رحمت و بر کت ) کا سوال کرتے رہو اور وہ خدا ہر چیز کو جانتا ہے ۔
1- - نہج البلاغہ کلمات قصار۔
2- - محجة البیضای جلد ۷ صفحہ ۶۱