Tafseer e Namoona

Topic

											

									  حق مہر کے لئے ایک معاشرتی سہارا ہے

										
																									
								

Ayat No : 4

: النساء

وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا ۴

Translation

عورتوں کو ان کا مہر عطا کردو پھر اگر وہ خوشی خوشی تمہیں دینا چاہیں تو شوق سے کھالو.

Tafseer

									زمانہ جاہلیت میںچونکہ لوگ عورتوں کی قدر و قیمت کے قائل نہیں تھے اس لئے اکثر اوقات حق مہر جو کہ عورت کا مسلم حق ہے وہ اس کے والیوں کو دے دےتے تھے اور اسے ان کا مسلم حق سمجھتے تھے ۔بعض اوقات اکی عورت کا حق مہر دوسری عورت کی شادی کو قرار دیتے تھے مثلاً ایک بھائی اپنی بہن کی شادی کسی سے کرتا تو اسے بھی مقابلے میں اپنی بہن اسے دینا پڑتی اور ان دونوں عورتوں کا یہی حق مہر ہوتا ۔ 
اسلا م نے ان تمام ظالمانہ رسوم پر خط بطلان کھینچ دیا اور حق مہر کو مخصوص طور پر عورت کا مسلم حق قرار دیا اور آیات قرآنی میں بارہا مردوں کو اس حق کی مکمل ادائیگی کی نصیحت کی ۔
اسلام میں مہر کے لئے کوئی مقدار معین نہیں کی گئی اور اس کا انحصار میاں بیوی کی باہمی رضا مندی پر ہے اگر چہ بہت سی روایات میں تاکید کی گئی ہے کہ حق مہر زیادہ نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ کوئی لازم و واجب حکم نہیں ہے بلکہ مستحب حکم ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد اور عورت شادی اور مباشرت سے یکساں طور پر بہرہ مند ہوتے ہیں اور میاں بیوی کا رشتہ طرفین کے باہمی فائدہ میں قائم ہوتا ہے تو ہھر اس کی کیا وجہ ہے کہ مرد کم یا زیادہ مال عورت کو حق مہر کے طور پر دے ۔ کیا اس طرح اس حکم سے عورت کے مقام پر زد نہیں پڑتی اور شادی بیاہ میں خرید و فروخت کی صورت نہیں بن جاتی ؟
اسی وجہ سے بعض لوگ حق مہر کی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔ مغرب میں چونکہ اس کا معمول نہیں ہے اس لئے مغرب زدہ لوگ خاص طور پر یہ مخالفت کرتے ہیں حالانکہ حق مہر کے نہ ہونے سے عورت کے مقام میں کوئی اتنا ضافہ نہین ہوتا لیکن اس طرح وہ خطرے سے ضرور دوچار ہو جاتی ہے ۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ عورت اور مرد یکساں طور پر ازدواجی زندگی سے فائدے اٹھاتے ہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علیحدگی کی صورت میں عورت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ مخصوص جسمانی استعداد کی بناء پر مرد عموماً معاشرے میں زیادہ نفوذ اور تسلط کا حامل ہوتا ہے اگر چہ بعض لوگ بات کرتے وقت اس واضح حقیقت کا انکار کر دیتے ہیں لیکن انسان کی اجتماعی زندگی کی کیفیت جو آنکھوںکو نظر آتی ہے یہ ہے کہ زیادہ آمدنی والے کام زیادہ تر مردوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں ۔ خود یورپ کی بھی یہی حالت ہے جہاں اصطلاحی طور پر عورتیں مکمل آزادیسے ہمکنار ہیں ۔
علاوہ ازیں مردوں کے لئے نئی بیوی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں لیکن بیوہ ورتیں خصوصا ً جب ان کی عمر کا کچھ حصہ گزر جائے اور وہ جوانی اور زیبائی کا سرمایہ ختم کر بیٹھیں تو نئے شوہر کے لئے ان کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں حقیقت میں حق مہر ایک ایسی چیز ہے جو وعورت کے لئے اس کے خسارے کی تلافی کا ذریعہ ہے اور آئندہ زندگی کے لئے محفوظ رکھنے کا وسیلہ ہے ۔ 
علاوہ ایں حق مہر عموماً مرد کو علیحدگی اختیار کرنے اور اسے طلاق دینے کے میلانات سے روکنے کے لئے ایک بریک کا کام دیتا ہے ۔ 
یہ درست ہے کہ قوانین اسلام کی رو سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہی حق مہر مرد کے ذمہ ہوجاتا ہے اور عورت فوراً ہی اس کے مطالبے کا حق رکھتی ہے لیکن چونکہ عموماً وہ قرض کی صورت میں مرد کے ذمہ رہ جاتا ہے لہذا یہ عورت کے لئے ایک پس انداز بچت کی حیثیت رکھتا ہے اور رشتہ تزویج نہ ٹوٹنے کے لئے ایک سہارے کا کام دیتا ہے ۔ 
اس مسئلے کے کچھ استثنائی پہلو بھی ہیں لیکن ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ زیادہ تر مقامات پر صادق آتا ہے ۔
اب اگر بعض لوگوں نے حق مہر کی غلط تفسیر کی ہے اور اسے عورت کی ایک طرح سے قیمت خیال کیا ہے ۔ اس کا قوانین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اسلام میں کسی طرح بھی حق مہر تجارت کی قیمت کا پہلو نہیں رکھتا اور اس کی بہترین دلیل نکاح کے صیغہ ہیں جن میں قانونی طور پر مرد اور عورت ہی اس پیمان کے دو بنیادی رکن شمار ہوتے ہیں اور حق مہر کا تذکرہ نہ کیا جائے تو عقد باطل نہیں ہے ۔ البتہ اس صورت میں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ مباشرت سے قبل اس جیسی عورتوں کا سا حق مہر ادا کرے ۔
جو کچھ کہا گیا ہے اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حق مہر نقصان کی تلافی اور عورت کے حقوق کے احترام کے پیش نطر ہے نہ کہ اس کی قیمت ہے اور شاید نحلة ( بمعنی عطیہ ) اسی مفہوم کی طرف اشارہ ہے ۔